عشری زمین کی کچھ صورتوں کا حکم

سوال کا متن:

 ہمارے  علاقے کی زمینیں بعض نہری ہیں اور بعض پر ٹیوب ویل یا رہٹ لگایا گیا ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ فصل زیادہ عرصہ بارش سے سیراب ہوتی  ہے اور ٹیوب ویل وغیرہ سے سیراب کرنے کی ضرورت کم پیش آتی ہے، اور بعض دفعہ ٹیوب ویل وغیرہ کا پانی زیادہ لگایا جاتا ہے اور بارش یا تو کم ہوتی  ہے یا بالکل نہیں ہوتی  تو ان مختلف صورتوں میں عشر کس حساب سے نکالا جاۓ گا؟ ہرصورت میں نصف عشر ہی دیا جاۓ گا یا اس میں کوئی تفصیل ہے ؟

 نیز جو زمینیں نہر سے سیراب ہوتی ہیں اور حکومت اس کا مالیہ لیتی  ہے ان میں عشر واجب ہے یا نہیں؟

جواب کا متن:

وجوبِ عشر اور نصفِ عشر سے متعلق ذیل میں کچھ ضابطے لکھے جاتے ہیں جن سے آپ کے تمام سوالات کے جوابات واضح ہو جائیں گے:

1- اگر کوئی  زمین بارانی ہے، یعنی وہ بارش سے سیراب کی جاتی ہے  تو اس زمین پر  عشر   (پیداوار کا دسواں حصہ) واجب ہوگا۔

2- اگر کوئی زمین کنویں یا نہر  یا تالاب یا ٹیوب ویل سے سیراب کی جاتی ہے تو اس زمین میں نصفِ عشر  (پیداوار کا بیسواں حصہ) واجب ہو گا۔

3-  اگر کوئی زمین  بارانی بھی ہے اور  کنویں یا نہر  یا تالاب وغیرہ سے بھی  سیراب کی جاتی ہے تو سیراب کرنے میں  جس کا تناسب زیادہ ہو گا عشر  یا نصفِ عشر  کے واجب ہونے میں اسی کا اعتبار ہو گا، یعنی اگر بارش سے زیادہ عرصہ سیراب ہوئی تو عشر واجب ہو گا اور اگر ٹیوب ویل وغیرہ سے زیادہ سیراب ہوئی تو نصفِ عشر واجب ہو گا۔

4- جس زمین کی آب پاشی بارش اور کنویں یا نہر ، دونوں طریقوں سے برابر ہو تو اس میں نصفِ عشر واجب ہو گا۔

5- جس زمین کی آب پاشی پر کچھ محنت لگتی ہو  یا کچھ  خرچ کرنا پڑتا ہے، جیسے چاہی زمینوں میں یا نہری زمینوں میں جن کے پانی کی قیمت حکومت کو ادا کرنی پڑتی ہے تو ان میں بھی  پیداوار کا بیسواں حصہ ادا کرنا واجب ہوگا۔

فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144008200721
تاریخ اجراء :05-05-2019