زکاۃ نکالنے کا طریقہ / تجارتی پلاٹ کی زکاۃ

سوال کا متن:

1-  میں ایک تنخواہ دار ملازم ہوں، اگر میں نے اپنی آمدنی کی زکاۃ  ادا کرنی ہو تو میں حساب کیسے کروں گا؟  اس وقت میرا معمول یہ ہے کہ  ہر رمضان المبارک  کی  15 تاریخ تک جتنے  پیسے میرے پاس نقد یا بینک میں ہوں، سب کی زکاۃ  ادا کرتا ہوں.

2- میرے پاس دو پلاٹ بھی ہیں، ایک گھر بنانے کے ارادے سے لیا ہے، دوسرا مستقبل میں بیچنے کی غرض سے. دونوں پر ابھی ایک سال نہیں گزرا. کیا ان پر زکاۃ فرض ہوگی؟

جواب کا متن:

1- صورتِ مسئولہ میں آپ کی سالانہ زکاۃ  نکالنے کی تاریخ (15 رمضان) کو آپ کے ذمہ اس تاریخ تک جو واجب الادا اخراجات (مثلاً قرض، بجلی، راشن وغیرہ کے بل وغیرہ) ہیں ان کو  آپ کی ملکیت میں جو کچھ سونا، چاندی، نقدی، مال تجارت، قرض پر دی ہوئی رقم (جس کی واپسی کی امید ہو)، امانت میں دی ہوئی رقم ہے، اس سے  منہا کرنے کے بعد جو رقم بچتی ہے، اگر ان سب کی مالیت  ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو آپ پر  ان کی مالیت کا ڈھائی فیصد بطورِ زکاۃ  ادا کرنا لازم ہوگا، یعنی آپ اپنے کل قابل زکاۃ (سونا، چاندی، نقدی اور مالِ تجارت جیسے نفع پر بیچنے کی نیت سے لیا گیا پلاٹ)  مال کو جمع کریں، اس میں واجب الادا  اخراجات منہا کریں، حاصل رقم کو چالیس سے تقسیم کردیں،  اس سے جو رقم آئے وہ آپ کو زکاۃ  میں دینا لازم ہوگی۔

2- جو  پلاٹ گھر بنانے کی نیت سے لیا ہے، اس پر زکاۃ  لازم نہیں ہے، اور جو  پلاٹ فروخت کرنے کی نیت سے لیا ہے اس کی زکاۃ ادا کرنا لازم ہے، اور جب آپ کی زکاۃ  نکالنے کی تاریخ ہو، اس میں اس پلاٹ کی  بھی موجودہ مارکیٹ ویلیو کی رقم کا حساب کیا جائے، اس پرالگ سے سال گزرنا شرط نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144008200213
تاریخ اجراء :16-04-2019