تیرہ لاکھ کی ملکیت ہوتے ہوئے زکاۃ لینا درست ہے؟

سوال کا متن:

میرے خالو کا 15 مارچ 2018 کو انتقال ہوا ہے۔ پس ماندگان میں بیوہ اور 5 بچے ہیں، 3 بیٹیاں اور2 بیٹے، مرحوم گھر کے واحد کفیل تھے، ابھی کمانے والا کوئی نہیں ہے، کرایہ کے مکان میں رہائش ہے، اور آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔مرحوم کو کمپنی کی طرف سے ملازمت کے حساب کی مد میں 900000روپےاور امداد کی مد میں 400000روپے ملےہیں۔ اب میری خالہ کے پاس کل 1300000روپے ہیں جس سے وہ اپنے لیے گھر خریدنا چاہتی ہے۔ جنابِ عالی معلوم یہ کرنا ہے کہ میری خالہ زکاۃ کی مصرف ہیں یا نہیں ؟خالہ کو زکاۃ دی جاسکتی ہے یا نہیں؟ مفصل جواب سے آگاہ فرمایئے!

جواب کا متن:

جس شخص کے پاس ضرورت سے زائد ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر مال یا سامان موجود ہو اسے زکاۃ دینا جائز نہیں ہے، لہٰذا جب آپ کی خالہ کے پاس  تیرہ لاکھ (۱۳۰۰،۰۰۰) روپے موجود ہیں، تو وہ زکاۃ کی مصرف نہیں ہیں، انہیں زکاۃ نہیں دی جا سکتی ہے، لیکن اگر وہ ان پیسوں سے اپنی رہائش کے لیے گھر خرید لیں  اور ان کے پاس نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت) کے برابر ضرورت سے زائد مال نہ ہو تو وہ زکاۃ کی مصرف بن جائیں گی اور ان کو زکاۃ دی جاسکے گی۔فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :143908201157
تاریخ اجراء :19-05-2018