صدقہ الفطر کا مصرف اور سعودی عرب میں رہنے والے کا صدقہ الفطر پاکستان میں ادا کرنا

سوال کا متن:

صدقۃ الفطر کس کو دے سکتے ہیں؟ اور ہم سعودیہ میں ہیں  تو کیا پاکستان میں دے سکتے ہیں؟

جواب کا متن:

صدقہ الفطر کا مصرف وہ ہی ہے جو زکاۃ کا مصرف ہے اور زکاۃ کے مصارف سات ہیں :  فقیر، مسکین، عامل ، رقاب، غارم، فی سبیل اللہ اور ابن السبیل۔

فقیر وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ مال ہے، مگر اتنا نہیں کہ نصاب کو پہنچ جائے۔

مسکین وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو، یہاں تک کہ وہ کھانے اور بدن چھپانے کے لیے بھی لوگوں سے سوال کا محتاج ہو۔

عامل وہ ہے جسے اسلامی حکومت کے حاکم  نے زکاۃ اور عشر وصول کرنے کے لیے مقرر کیا ہو، اس کو بھی زکاۃ دی جا سکتی ہے۔

رِقاب سے مراد ہے غلامی سے گردن رہا کرانا۔

غارم سے مراد مَدیون (مقروض) ہے یعنی اس پر اتنا قرض ہو کہ اسے نکالنے کے بعد نصاب باقی نہ رہے۔

فی سبیل اللہ کے معنی ہیں راہِ خدا میں خرچ کرنا، اس کی چند صورتیں ہیں مثلاً کوئی شخص محتاج ہے کہ جہاد میں جانا چاہتا ہے اور اس کے پاس رقم نہیں تو اس کو  زکاۃ دے سکتے ہیں۔

ابن السبیل سے مراد مسافر ہے، مسافر کے پاس اگر مال ختم ہو جائے تو اس کو بھی زکاۃ  کی رقم دی جا سکتی ہے اگرچہ اس کے پاس اس کے اپنے وطن میں مال موجود ہو۔

لہذا ان سب کو صدقہ الفطر دیا جا سکتا ہے۔

فقہاء نے زکاۃ کی رقم کے متعلق لکھا ہے کہ  زکاۃ کی رقم میں بہتر یہ ہے کہ جہاں آدمی رہ رہا ہو وہیں کے محتاجوں پر خرچ کرے اور دوسری جگہ منتقلی کو  مکروہ لکھا ہے، البتہ زکاۃ پھر بھی ادا ہوجائے گی، اور اگر دوسری جگہ کے مسلمان زیادہ مستحق ہوں یا زکاۃ دینے والے کے مستحق رشتہ دار دوسری جگہ ہوں تو پھر کراہت بھی نہیں، بلکہ اس صورت میں افضل یہ ہے کہ ان کو دی جائے جو زیادہ مستحق ہیں، یہ ہی حکم صدقہ الفطر کا ہو گا۔

البتہ آپ کی رہائش سعودی عرب میں ہے تو آپ وہاں اناج کی قیمت کے اعتبار سے صدقہ فطر ادا کریں گے، خواہ وہ رقم پاکستان میں بھجوائیں۔

"قال في البحر: وکره نقلها إلی بلد آخر لغیر قریب وأحوج؛ أماالصحة فلاطلاق قوله تعالی: {انما الصدقات للفقراء} من غیر قید بالمکان، وأما حدیث معاذ المشهور: "خذها من أغنیاءهم وردها إلی فقراءهم"، فلاینفی الصحة؛ لأن الضمیر إلی فقراء المسلمین".(ج:۲، ص: ۲۵۰)فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144008201173
تاریخ اجراء :18-05-2019