احرام کی حالت میں حجر اسود کو بوسہ دینے کا حکم

سوال کا متن:

اگر پتا نہ ہو کہ حجر اسود پر خوشبو لگی ہوئی ہے اور احرام کی حالت میں بوسہ دے دیا تو کیا دم دینا پڑتا ہے؟  کیوں کہ پتا ہی نہیں تھا کہ حجر اسود پر خوشبو لگی ہوتی ہے؟

جواب کا متن:

حجر اسود پر چوں کہ خوش بو لگی ہوئی ہوتی ہے؛ اس لیے احرام کی حالت میں اس کا بوسہ لینا یا چھونا جائز نہیں ہے، البتہ حالتِ احرام میں حجر اسود کو بوسہ دینے کی وجہ سے دم کے واجب ہونے کا مدار کثرت پر ہے، یعنی اگر خوش بو  زیادہ لگ گئی تو دم واجب ہوگا اور اگر قلیل مقدار میں لگی ہے تو  صدقہ کرنا لازم ہوگا،دم واجب نہیں ہوگا،قلیل اور کثیر کے معیار کے بارے میں متعدد اقوال ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ حجر اسود کو بوسہ دینے کی صورت میں دیکھا جائے گا کہ اگر نفسِ خوش بو  کی مقدار زیادہ ہو تو ہونٹوں کے چوتھائی حصے پر وہ خوش بو  لگنے سے بھی دم واجب ہوجائے گا، لیکن اگر نفسِ خوش بو   کی مقدار کم ہو تو کامل عضو (ہونٹوں ) پر لگنے کی صورت میں دم لازم ہوگا اور اس سے کم میں صدقہ لازم ہوگا۔

المحيط البرهاني في الفقه النعماني (2/ 453):

"وقال في المحرم: إذا مس الطيب أو استلم الحجر فأصاب يده خلوق، إن كان ما أصابه كثير فعليه الدم".

الفتاوى الهندية (1/ 240):

"فإذا استعمل الطيب فإن كان كثيراً فاحشاً ففيه الدم، وإن كان قليلاً ففيه الصدقة، كذا في المحيط. واختلف المشايخ في الحد الفاصل بين القليل والكثير، فبعض مشايخنا اعتبروا الكثرة بالعضو الكبير نحو الفخذ والساق، وبعضهم اعتبروا الكثرة بربع العضو الكبير، والشيخ الإمام أبو جعفر اعتبر القلة والكثرة في نفس  الطيب، إن كان الطيب في نفسه بحيث يستكثره الناس ككفين من ماء الورد وكف من الغالية والمسك بقدر ما استكثره الناس فهو كثير، وما لا فلا، والصحيح أن يوفق ويقال: إن كان الطيب قليلاً فالعبرة للعضو لا للطيب، حتى لو طيب به عضواً كاملاً يكون كثيراً يلزمه دم وفيما دونه صدقة، وإن كان الطيب كثيراً فالعبرة للطيب لا للعضو، حتى لو طيب به ربع عضو يلزمه دم، هكذا في محيط السرخسي والتبيين".فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144008200573
تاریخ اجراء :29-04-2019