غزوہ ہند

سوال کا متن:

کیا غزوہ ہند ہوچکا ہے یا ابھی باقی ہے؟

جواب کا متن:

غزوہ ہند کے بارے میں مروی احادیث میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

'' عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: وَعَدَنَا رَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم فِي غَزْوَةِ الْهِنْدِ، فَإِنْ اسْتُشْهِدْتُ کُنْتُ مِنْ خَيْرِ الشُّهَدَاءِ وَإِنْ رَجَعْتُ فَأَنَا أَبُوهُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ.''

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے غزوہ ہند کے بارے میں وعدہ فرمایا تھا، سو اگر میں شہید ہو گیا تو بہترین شہیدوں میں سے ہوں گا۔ اگر واپس آ گیا تو میں آزاد ابو ہریرہ ہوں گا‘‘۔

  1. احمد بن حنبل، المسند، 2: 228، رقم: 7128، مؤسسۃ قرطبۃ، مصر
  2. حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 3: 588، رقم: 6177، دار الکتب العلمیۃ، بیروت

'' عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ: وَعَدْنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم غَزْوَةَ الْهِنْدِ فَاِنْ اَدْرَکْتُهَا أَنْفِق فِيْهَا نَفْسِي وَمَالِي فَاِنْ اُقْتَل کُنْتُ مِنْ أَفْضَلِ الشُّهَدَآءِ وَاِنْ أَرْجِع فَأَنَا اَبُوْهُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ.''

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے وعدہ فرمایا تھا کہ مسلمان ہندوستان میں جہاد کریں گے، اگر وہ جہاد میری موجودگی میں ہوا تو میں اپنی جان اور مال اللہ  تعالی کی راہ میں قربان کروں گا۔ اگر میں شہید ہو جاؤں تو میں  افضل ترین شہداء میں سے ہوں گا اور  اگر میں زندہ رہا تو میں وہ ابو ہریرہ ہوں گا جو عذاب جہنم سے آزاد کر دیا گیا ہے‘‘۔

  1. سنن نسائی،  3: 28، رقم: 4382، دار الکتب العلمیۃ بیروت

'' عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَی رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَحْرَزَهُمَا اﷲُ مِنْ النَّارِ: عِصَابَةٌ تَغْزُو الْهِنْدَ وَعِصَابَةٌ تَکُونُ مَعَ عِيسَی ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَام''.

’’حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام تھے، سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے دو گروہوں کو اللہ  تعالیٰ دوزخ کے عذاب سے بچائے گا : ان میں سے ایک ہندوستان میں جہاد کرے گا اور دوسرا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوگا‘‘۔

  1. احمد بن حنبل، المسند، 5: 278، رقم: 22449
  2. سنن نسائی، 3: 28، رقم: 4384
  3. بیہقی، السنن الکبری، 9: 176، رقم: 18381
  4. طبراني، المعجم الاوسط، 7: 2423، رقم: 6741، دار الحرمين القاهرة  

البتہ اس غزوے  کے حقیقی مصداق کے بارے میں کوئی صریح نص نہیں ہے کہ یہ کب ہوگا ۔ان احادیث میں اصل درس  اللہ کے دین کی سر بلندی کے لیے  حتی الوسع اپنی کوشش  لگادینے  کی ترغیب ہے۔اور اس کا وقوع کب ہوگا یہ بات دین کے مقاصد میں سے نہیں۔ نہ اس پردین کا  کوئی حکم موقوف ہے۔فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :143908200402
تاریخ اجراء :06-05-2018