زا ئد بال کاٹنا

سوال کا متن:

کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام اس مسئلے میں: جسم کے کون سے زائد بال کاٹنے چاہیں اور کون سے نہیں؟ اور اس کی حدود کیا ہیں ؟

جواب کا متن:

جسم کے زائد بالوں سے مراد  زیرِ ناف بال اور بغل کے بال ہوتے ہیں، انہیں صاف کرنے کا حکم ہے۔  زیرِ ناف کی صفائی کی حد مثانہ سے نیچے پیڑو کی ہڈی سے شروع ہوتی ہے ، اس لیے پیڑو  کی ہڈی کے شروع سے لے کر مخصوص اعضاء ، ان کے ارد گرد اور ان کے برابر رانوں کے جوڑ تک اور پاخانے کی جگہ اور اس کے ارد گردکے بال صاف کرنا واجب ہے۔

اس کے علاوہ مرد کے لیے داڑھی کے بال ایک مشت سے زائد ہوجائیں تو ان کا کاٹنا بھی جائز ہے۔ یا چہرے پر (گال پر) بال اگ آئیں تو ان کا  کاٹنا بھی جائز ہے۔

خواتین کے چہرے پر اگر بال اگ آئیں تو ان کا کاٹنا مستحب ہے۔

اس کے علاوہ ہاتھوں اور پیروں ،سینے کے بال کاٹنا مردوں کے لیے بہتر نہیں ہے، عورتوں کے لیے جائز ہے۔

"" إذا نبت للمرأة لحیة فیستحب لها حلقها ، ذکره الطیبي "". ("مرقاة المفاتیح " ، ۸/۲۷۴ ، کتاب اللباس ، باب الترجل)
"" یری جمهور العلماء أنه لو نبت للمرأة لحیة وشارب أو عنفقة کان لها إزالتها بالحلق"". (الموسوعة الفقهية ــ۱۸/۱۰۰ ، حلق)
""إزالة الشعر من الوجه حرام ، إلا إذا نبت للمرأة لحیة أو شوارب فلا تحرم إزالته، بل تستحب""۔ (۹/۴۵۵ ، کتاب الحظر والإباحة ، فصل في النظر والمسّ)
وفي ’’ مرقاة المفاتیح ‘‘ : (المتنمّصات) ... هي التي تطلب إزالة الشعر من الوجه بالمنماص أي المنقاش ، والتي تفعله نامصة. قال النووي : وهو حرام إلا إذا نبت للمرأة لحیة أو شوارب"" ۔ (۸/۲۸۰ ، کتاب اللباس والترجل)

وفيه: ""ولابأس بأخذ الحاجبین وشعر وجهه مالم یشبه المخنث"". (مرقاة المفاتیح ،کتاب الأدب ،باب الترجل ،الفصل الأول :۸؍۲۸۹۔ط: امدادیة ملتان) فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :143909201867
تاریخ اجراء :13-08-2018