کھڑے ہو کر پیشاب کرنے سے ممانعت کی دلیل

سوال کا متن:

رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہو کر ۔قیاماً۔ پیشاب کرنے سے منع کیا ہے، کوئی حدیث ہوتو حوالہ بتادیں؟

جواب کا متن:

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کھڑے ہوئے پیشاب کرتے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمر! کھڑے ہوکر پیشاب مت کرو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: پھر میں نے کبھی کھڑے ہوکر پیشاب نہیں کیا۔

'' عن عمر رضي اللّٰه عنه قال: راٰني النبي صلی اللّٰه علیه وسلم أبول قائمًا، فقال: یا عمر! لا تبل قائمًا، فما بُلتُ قائمًا بعد''۔ (سنن الترمذي، أبواب الطهارة، باب النهي عن البول قائمًا،1/9)

''عن عبد اللّٰه بن مسعود رضي اللّٰه عنه قال: إن من الجفاء أن تبول وأنت قائم''۔ (سنن الترمذي، أبواب الطهارة، باب النهي عن البول قائمًا، 1/۹)
 بلاعذر کھڑے ہوکر پیشاب کرنا مکروہ (ناپسندیدہ) ہے، یہ مروت ووقار اور اسلامی تہذیب کے خلاف ہے، نیز اِس میں کشفِ عورت (ستر) اور بدن اور کپڑوں کے پیشاب میں ملوث ہونے کا زیادہ احتمال ہے، اور پیشاب کے چھینٹوں سے بچنے کے اہتمام کی تاکید حدیث مبارکہ میں آئی ہے اور اسے عذاب قبر کی اسباب میں شمار کیا گیا ہے، موجودہ دور میں بلاعذر کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کو  غیر مسلموں کا شعار بننے کی وجہ سے حضرت بنوری رحمہ اللہ نے مکروہ تحریمی کہاہے۔

 آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عام عادتِ شریفہ بیٹھ کر پیشاب کرنے کی تھی، اور جن بعض روایات میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کا ذکر ہے، وہ عذر پر محمول ہے۔ شراحِ حدیث نے ایسی اَحادیث کی شرح فرماتے ہوئے درج ذیل اعذار کا ذکر کیا ہے:
الف:-  کمر میں تکلیف کی وجہ سے آپ کے لیے بیٹھنا دشوار تھا۔
ب:-  گھٹنے کی تکلیف کی وجہ سے بیٹھنے میں دشواری تھی۔
ج:-  اُس مقام پر گندگی کی وجہ سے بیٹھنے کی مناسب جگہ نہ تھی، وغیرہ۔
بہرحال بلاعذر کھڑے ہوکر پیشاب نہیں کرنا چاہیے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ : ’’ جو شخص تم سے یہ بیان کرے کہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کھڑے ہوکر پیشاب کیا کرتے تھے، تو تم اُس کی اِس بات کو سچ نہ مانو،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر ہی پیشاب کیا کرتے تھے۔تاہم اگر کسی معقول عذر کی وجہ سے بیٹھ کر پیشاب کرنا ممکن نہ ہوتو کھڑے ہوکر کرنا بھی جائز ہے۔

'' عن عائشة رضي اللّٰه عنها قالت: من حدثکم أن النبي صلی اللّٰه علیه وسلم کان یبول قائمًا، فلا تصدقوه، ما کان یبول إلا قاعدًا''۔ (سنن الترمذي، أبواب الطهارۃ، باب النهي عن البول قائمًا ،1/9)

'' أکثر ما کان یبول وهو قاعدٌ''۔ (زاد المعاد ، فصل في هديه صلى الله عليه وسلم عند قضاء الحاجة، 1؍124)
''قال حسن بن عمّار رحمه الله: ''ویکره البول قائماً لتنجسه غالباً، إلامن عذر، کوجع بصلبه ۔۔۔'' الخ(مراقي الفلاح)

قال السید یوسف البنوري رحمه الله : ''إن البول قائماً وإن کانت فیه رخصة، والمنع للتأدیب لاللتحریم، کما قاله الترمذي، ولٰکن الیوم الفتوٰی علٰی تحریمه أولٰی حیث أصبح شعاراً لغیر المسلمین من الکفاروأهل الأدیان الباطلة ''۔ (معارف السنن:ج؍۱،ص؍۱۰۶،باب النهي عن البول قائماً)فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :143909201007
تاریخ اجراء :24-06-2018