کیپ کی مہندی (جس کو دھونے کے چار پانچ دن بعد پپڑی یا جھلی وغیرہ اترنے لگتی ہے) کے استعمال کی صورت میں وضو و غسل کا حکم

سوال کا متن:

کیافرماتے ہیں مفتیانِ کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ:کیپ کی مہندی لگانے کا کیا حکم ہے؟  کیپ کی مہندی ایسی ہوتی ہے کہ جب اس کو ہاتھوں پر لگا کر عورتیں ہاتھوں کو دھوتی ہیں تو ہاتھوں پر صرف رنگ باقی رہ جاتا ہے؛ مگر چار پانچ دن کے بعد اس رنگ کے اوپر سے پپڑی اترنے لگتی ہے، ایسی مہندی کا استعمال کیسا ہے؟  مدلل جواب عنایت فرمائیں !

جواب کا متن:

ہر قسم کی مہندی لگانا جائز ہے بشرطیکہ  مہندی میں کوئی ناپاک شے ملی ہوئی نہ ہو، مہندی لگانے کے بعد وضو اور غسل وغیرہ کا حکم یہ ہے کہ مہندی لگانے یا رنگنے سے جو رنگ لگا رہ جائے اس سے وضو اور غسل وغیرہ میں خلل نہیں آتا، البتہ اگر جمی ہوئی مہندی ہاتھ پر جمی رہ گئی تو اس پر وضو صحیح نہیں ہوگا، کیوں کہ وہ جسم پر پانی پہنچنے سے مانع ہوتی ہے۔

موجودہ دور میں بعض مہندیاں ایسی ہیں کہ لگانے کے بعد جب ہاتھ دھولیتے ہیں تو رنگ باقی رہتاہے، لیکن بعد میں جب رنگ اترنے لگتا ہے تو جھلی نما باریک تہہ چھلکا بن کر الگ ہوجاتی ہے، ایسی مہندی لگاکر وضو کرنے سے وضو ہوجائے گا؛  کیوں کہ وہ جسم تک پانی پہنچنے سے مانع نہیں ہوتی ہے بشرطیکہ نفسِ مہندی کو دھو کر زائل کرلیا ہو اور صرف رنگ باقی رہ گیا ہو۔

جامعہ کے سابقہ فتاویٰ میں ہے:

’’سوال: آج کل بازار میں ایک مہندی آئی ہوئی ہے، اس کو لگایا جائے تو لگانے کے دس یا پندرہ منٹ بعد رنگ لے آتی ہے، لیکن جب یہ رنگ اترنا شروع ہوتا ہے تو عام مہندی کے رنگ کی طرح نہیں، یعنی مٹتا نہیں، بلکہ ربڑ کی طرح کھال سے جدا ہوکر گرتاہے۔ اب بعض خواتین کا کہنا ہے کہ یہ جو اترتا ہے یہ رنگ نہیں ہے، بلکہ جسم کی کھال ہے، جو اس (کیمیکل ملی ہوئی) مہندی کے جلد پر اثر انداز ہونے کی وجہ سے گرتی ہے، جب کہ بعض خواتین کا کہناہے کہ یہ مہندی کا رنگ ہے جو مہندی لگانے کے بعد آجاتا ہے، کھال نہیں ہے۔

اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس مہندی کا کیا حکم ہے؟ اس کو استعمال کیا جاسکتاہے یا نہیں؟ جسم سے جدا ہونے والی چیز کو مہندی کا رنگ شمار کیا جائے گا یا جسم کی کھال؟ اور اس رنگ کے موجود ہوتے ہوئے وضو اور غسل کا کیا حکم ہوگا؟ 

مستفتی: انصرام احمد شمسی

جواب: صورتِ مسئولہ میں مذکورہ مہندی کا استعمال شرعاً جائز ہے، اور اس مہندی کے رنگ کے ہوتے ہوئے وضو اور غسل بھی ہوجاتاہے، کیوں کہ اس کی ایسی تہہ نہیں ہوتی جو پانی کو جسم تک نہ پہنچنے دے ۔۔۔الخ

کتبہ: دوست محمد

الجواب صحیح: ابوبکر سعید الرحمٰن               محمد انعام الحق                         محمد شفیق عارف

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 154):

"(ولا يمنع) الطهارة (ونيم) أي خرء ذباب وبرغوث لم يصل الماء تحته (وحناء) ولو جرمه، به يفتى.

(قوله: به يفتى) صرح به في المنية عن الذخيرة في مسألة الحناء والطين والدرن معللاً بالضرورة. قال في شرحها: ولأن الماء ينفذه لتخلله وعدم لزوجته وصلابته، والمعتبر في جميع ذلك نفوذ الماء ووصوله إلى البدن".

الفتاوى الهندية (1/ 4):

"في فتاوى ما وراء النهر: إن بقي من موضع الوضوء قدر رأس إبرة أو لزق بأصل ظفره طين يابس أو رطب لم يجز وإن تلطخ يده بخمير أو حناء جاز.

وفي الجامع الصغير: سئل أبو القاسم عن وافر الظفر الذي يبقى في أظفاره الدرن أو الذي يعمل عمل الطين أو المرأة التي صبغت أصبعها بالحناء، أو الصرام، أو الصباغ؟ قال: كل ذلك سواء يجزيهم وضوءهم إذ لايستطاع الامتناع عنه إلا بحرج، والفتوى على الجواز من غير فصل بين المدني والقروي، كذا في الذخيرة. وكذا الخباز إذا كان وافر الأظفار، كذا في الزاهدي ناقلاً عن الجامع الأصغر.

والخضاب إذا تجسد ويبس يمنع تمام الوضوء والغسل، كذا في السراج الوهاج ناقلاً عن الوجيز".فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144010200616
تاریخ اجراء :06-07-2019