اذان و اقامت کے بغیر نماز ادا کرنے کا حکم

سوال کا متن:

 کیا اذان اور اقامت کے بغیر نماز ہو جائے گی؟  یا نماز کا وقت داخل ہوا ہی نہیں تھا اور اذان دے دی گئی اور اس کے بعد دوبارہ اذان نہیں دی گئی تو کیا نماز ہوجائے گی؟  اور اقامت جان بوجھ کر یا بھول کر نہیں دی اس کے متعلق بھی بتادیں!

جواب کا متن:

* اذان سنتِ مؤکدہ ہے جو واجب کے قریب اور دین کے شعائر میں سے ہے، نیز اقامت کہنا جماعت کی نماز میں سنت اور انفرادی فرض نماز میں مستحب ہے، لہٰذا فرض نماز کی ادائیگی میں اذان اور اقامت کا اہتمام ہونا چاہیے۔

* اگر جماعت سے نماز ادا کرتے ہوئے اذان اور اقامت بالکل ترک کردی گئی (یعنی مسجد میں بھی نہیں دی گئی اور قریب میں کسی مسجد کی اذان کی آواز بھی وہاں تک نہ پہنچتی ہو) تو یہ مکروہ اور گناہ ہوگا، البتہ نماز ادا ہوجائے گی۔
* اگر نماز کا وقت داخل ہی نہیں ہوا تھا اور اذان دے دی گئی تو وقت داخل ہونے کے بعد اذان کا اعادہ کرنا چاہیے، وقت سے پہلے دی گئی اذان کافی نہ ہوگی۔

*  اگر کسی مسجد میں اذان ہو گئی ہو اور وہ سن لی گئی ہو تو اذان ترک کرنے سے گناہ نہیں ہو گا، خواہ انفرادی نماز ہو یا جماعت سے ادا کرے۔ 

*  اگر محلہ میں اذان ہو گئی ہو اور جماعت سے نماز ادا کرنی ہو تو ایسی صورت میں اقامت کہہلینی چاہیے، قصداً اقامت  ترک کرنا مکروہ ہے۔

 

* انفرادی فرض نماز  میں اقامت چھوڑدی تو اس سے گناہ نہیں ہوگا، البتہ خلافِ اولیٰ ہوگا۔ 

الفتاوى الهندية (1/ 54):
"ويكره أداء المكتوبة بالجماعة في المسجد بغير أذان وإقامة. كذا في فتاوى قاضي خان ولا يكره تركهما لمن يصلي في المصر إذا وجد في المحلة ولا فرق بين الواحد والجماعة. هكذا في التبيين والأفضل أن يصلي بالأذان والإقامة كذا في التمرتاشي وإذا لم يؤذن في تلك المحلة يكره له تركهما ولو ترك الأذان وحده لا يكره كذا في المحيط ولو ترك الإقامة يكره. كذا في التمرتاشي".

العناية شرح الهداية (1/ 253):
"(ولا يؤذن لصلاة قبل دخول وقتها ويعاد في الوقت) لأن الأذان للإعلام وقبل الوقت تجهيل".
فقط واللہ اعلم 

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144004201337
تاریخ اجراء :20-02-2019