عصر کی نماز مثل اول میں پڑھنا درست نہیں

سوال کا متن:

مثلِ ثانی سے پہلے عصر کی نماز پڑھنے کا حکم کیا ہے؟ایک ادارہ کے مالک 4.55.پر جماعت پڑھواتے ہیں ،جب کے مثل ثانی 5. 10 منٹ  پرہے۔ مالک کی چاہت یہ ہے کے تمام ورکرز نماز پڑھ کر گھر جائیں۔کیا نماز درست ہوگی؟

جواب کا متن:

فقہ حنفی میں مفتی بہ قول کے مطابق عصر کی نماز کے وقت کی ابتدا ہر چیز کے سائے کے (زوال کے وقت کے سائے کے علاوہ) دو مثل یعنی دوگنا ہوجانے کے بعد ہوتی ہے۔ اس لیے اس وقت سے قبل عصر کی نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔لہذا مذکورہ ادارے میں مثلِ ثانی سے قبل باجماعت نماز کی ادائیگی درست نہیں،چوں کہ مثل ثانی کے داخل ہونے سے  فقط دس پندرہ منٹ قبل نماز ادا کی جاتی ہے ؛ لہذا  مثلِ ثانی کے داخل ہونے کے لیے مزیددس پندرہ منٹ  انتظار کرلیا جائے  ،اور مثلِ ثانی داخل ہوتے ہی نماز اداکرلیں ۔نماز کے لیے اس قلیل وقت  کے انتظار میں اتنا ہی ثواب ہے، جتنا اللہ کی راہ میں ملکی سرحد پر پہرہ دینے میں ثواب ہے۔'' مسلم شریف''  کی روایت میں ہے:

'' حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا : کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتادوں جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو دور کر دے اور جس کے سبب (جنت میں) تمہارے درجات کو بلند کرے؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا : جی ہاں،اے اللہ کے رسول ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مشقّت کے وقت (یعنی بیماری یا سخت جاڑے میں) وضو کو پورا کرنا، مسجد کی طرف (گھر سے دور ہونے کی وجہ سے ) کثرت سے قدموں کا رکھنا اور (ایک) نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا، پس یہ رباط(اسلامی مملکت کی سرحد پر دشمنانِ اسلام کےمقابلہ پر نگہبانی کی خاطر بیٹھنا) ہے''۔

'' فتاوی شامی '' میں ہے:

قال ابن عابدين ناقلاً عن السراج:هل إذا لزم من تأخيره العصر إلى المثلين فوت الجماعة يكون الأولى التأخير أم لا؟ الظاهر الأول ، بل يلزم لمن اعتقد رجحان قول الإمام، تأمل ، ثم رأيت في آخر شرح المنية ناقلاً عن بعض الفتاوى أنه لو كان إمام محلته يصلي العشاء قبل غياب الشفق الأبيض فالأفضل أن يصليها وحده بعد البياض· (۱: ۳۵۹ ط: سعيد) فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :143908200182
تاریخ اجراء :04-05-2018