مرد کے لیے بوسکی کپڑا پہننے کا حکم

سوال کا متن:

بوسکی سوٹ پہننا کیسا ہے؟ کیاریشم کے زمرے میں داخل تو نہیں ؟

جواب کا متن:

واضح رہے کہ ہر ایسا کپڑا جس کا تانا بانا دونوں ریشم کے ہوں یا بانا ریشم کا ہو یا تانا بانا دونوں میں ریشم شامل ہو اور مجموعی طور پر ریشم غالب ہو وہ مردوں کے لیے پہننا حرام ہے، بصورتِ دیگر تمام کپڑے مردوں کے لیے استعمال کرنا شرعاً جائز ہے۔

اس وقت مارکیٹ میں ’’بوسکی‘‘ کے نام سے منسوب کئی قسم کے کپڑے فروخت کیے جارہے ہیں، جن میں سے بعض کی تیاری میں خالص ریشم ہی استعمال ہو رہا ہے اور بعض کا بانا خالص ریشم کا ہے اور بعض مخلوط دھاگے سے تیار کیا جارہا ہے، اور عموماً’’بوسکی‘‘ کپڑا مصنوعی (آرٹیفشل) ریشم سے تیار کیا جارہا ہے، اگرچہ اسے خالص ریشم سمجھا جاتاہے؛ لہٰذا ’’بوسکی‘‘ کپڑے کو مطلقاً ریشم نہیں کہا جاسکتا، الا یہ کہ کسی کپڑے کے بارے میں تحقیق سے ثابت ہوجائے۔

بہرحال مرد کے پہننے کے لیے  بوسکی کپڑے کی خریداری سے پہلے خریدار خوب اچھی طرح معلومات کرنے کے بعد ’’بوسکی‘‘  کپڑا خریدا جائے۔ اگر وہ خالص ریشم یا اس کا بانا خالص ریشم کا ہو یا تانا بانا میں اکثر ریشم کا ہو اور ریشم غالب بھی ہو تو ایسا کپڑا مرد کے لیے پہننا جائز نہیں۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

’’وقال الطيبي : هو الثوب الذي يكون سداه ولحمته من الحرير لا شيء غيره ، ومفاد العبارتين واحد ( وسدى الثوب ) : بفتح السين والدال بوزن الحصى ، ويقال ستى بمثناة من فوق بدل الدال لغتان بمعنى واحد وهو [ ص:82 ] خلاف اللحمة وهي التي تنسج من العرض وذاك من الطول ، والحاصل أنه إذا كان السدى من الحرير واللحمة من غيره كالقطن والصوف ( فلا بأس )؛ لأن تمام الثوب لا يكون إلا بلحمته .  والحديث يدل على جواز لبس ما خالطه الحرير إذا كان غير الحرير الأغلب وهو مذهب الجمهور‘‘.

’’لا يختلفون في الثوب المصمت الحرير الصافي الذي لا يخالطه غيره أنه لايحل للرجال لباسه‘‘. (١٤/ ٢٤٠)

’’لا بأس بلبس ماسداه إبريسم و لحمته قطن أو خز‘‘. (ص: ٤٩)

و في الشامية: ’’( قوله: و لحمته غيره) سواء كان مغلوباً أو غالباً أو مساوياً للحرير، و قيل: لا بأس إلا إذا غلبت اللحمة علي الحرير، و الصحيح الأول‘‘. ( شامي، كتاب الحظر و الإياحة، ٦/ ٣٥٦، ط: سعيد) فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :143909201609
تاریخ اجراء :30-07-2018