بیوی کا والدہ کے انتقال پر سال بھر سوگ مناتے ہوئے شوہر کے مطالبہ کے باوجود نئے کپڑے اور جائز زینت اختیار نہ کرنے کا حکم

سوال کا متن:

عرض یہ ہے کہ ایک شادی شدہ لڑکی کی ماں فوت ہو گئی ہے،  اور تقریباً 6 یا 7 ماہ گزر چکے ہیں، اب عید الاضحی کی آمد ہے اور اس کو شوہر کہتا ہے کہ نئے کپڑے خرید لو، اور میک اپ وغیرہ کیا کریں،  لیکن وہ یہ کہہ کر بات کو ٹال دیتی ہے کہ ابھی میری ماں کو فوت ہوئے سال نہیں گزرا۔سال گزر جانے کے بعد میں میک اپ اور نئے کپڑوں کے بارے میں سوچوں  گی۔  آپ سے گزارش ہے کہ آپ مدد فرمائیں کہ وہ سال گزرنے کا انتظار کرے یا شوہرکی بات مانے؟

جواب کا متن:

حدیث شریف میں آتا ہے کہ  جو عورت اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہے  اس کے لیے شوہر کے علاوہ کسی کی بھی  وفات پر تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں ہے، البتہ شوہر کی وفات پر عورت چار مہینے اور دس دن تک سوگ منائے گی۔  لہٰذا مذکورہ خاتون کا والدہ کی وفات کو سات ماہ گزرنے کے باوجود سوگ منانا اور سوگ کی وجہ سے شوہر کے مطالبہ کے باوجود نئے کپڑے نہ پہننا اور جائز زینت اختیار نہ کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، اس عمل کی وجہ سے اسے شریعتِ مطہرہ کے سوگ نہ منانے والے حکم  کی خلاف ورزی کا گناہ بھی ملے گا اور اس کے ساتھ ساتھ شوہر کے جائز حکم کی نافرمانی کا گناہ بھی ملے گا، لہٰذا اس خاتون کو چاہیے کہ والدہ کی وفات پر سال گزرنے تک سوگ منانے کے بجائے شوہر کے مطالبہ پر نئے کپڑے بھی پہنے اور جائز حد تک زینت بھی اختیار کرے۔

صحيح البخاري (2/ 78):

"حدثنا مسدد، حدثنا بشر بن المفضل، حدثنا سلمة بن علقمة، عن محمد بن سيرين، قال: توفي ابن لأم عطية رضي الله عنها، فلما كان اليوم الثالث دعت بصفرة، فتمسحت به، وقالت: «نهينا أن نحد أكثر من ثلاث إلا بزوج»".

صحيح البخاري (2/ 78):

"حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، حدثنا أيوب بن موسى، قال: أخبرني حميد بن نافع، عن زينب بنت أبي سلمة، قالت: لما جاء نعي أبي سفيان من الشأم، دعت أم حبيبة رضي الله عنها بصفرة في اليوم الثالث، فمسحت عارضيها، وذراعيها، وقالت: إني كنت عن هذا لغنية، لولا أني سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر، أن تحد على ميت فوق ثلاث، إلا على زوج، فإنها تحد عليه أربعة أشهر وعشراً»".

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (8/ 64):

" (باب حد المرأة على غير زوجها)

أي: هذا باب في بيان إحداد المرأة على غير زوجها، والإحداد، بكسر الهمزة من: أحدت المرأة على زوجها تحد فهي محدة، إذا حزنت عليه ولبست ثياب الحزن وتركت الزينة، وكذلك حدت المرأة من الثلاثي تحد من باب: نصر ينصر، وتحد، بكسر الحاء من باب: ضرب يضرب، فهي: حادة. وقال الجوهري: أحدت المرأة، أي: امتنعت من الزينة والخضاب بعد وفاة زوجها، وكذلك حدت حدادا، ولم يعرف الأصمعي إلا: أحدت، فهي محدة. وفي بعض النسخ: باب حداد المرأة، بغير همزة على لغة الثلاثي. وفي بعضها: باب حد المرأة، من مصدر الثلاثي، وأبيح للمرأة الحداد لغير الزوج ثلاثة أيام وليس ذلك بواجب، وقال ابن بطال: أجمع العلماء على أن من مات أبوها أو ابنها وكانت ذات زوج وطالبها زوجها بالجماع في الثلاثة الأيام التي أبيح لها الإحداد فيها أنه يقضي له عليها بالجماع فيها، وقوله: (على غير زوجها) يشمل كل ميت غير الزوج سواء كان قريبا أو أجنبيا، وأما الحداد لموت الزوج فواجب عندنا، سواء كانت حرة أو أمة، وكذلك يجب على المطلقة طلاقا بائنا مطلقا. وقال مالك والشافعي وأحمد: لا يجب، ولا يجب على ذمية ولا صغيرة عندنا، خلافا لهم. فإن قلت: لم يقيد في الترجمة بالموت؟ قلت: قال بعضهم: لم يقيده في الترجمة بالموت لأنه مختص به عرفا، وظاهر الترجمة ينافي ما قاله، فكان البخاري لايرى أنه مختص به عنده، فترك التقييد به".  فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144010200683
تاریخ اجراء :09-07-2019