والد دنیا سے ناراض چلے گئے

سوال کا متن:

اگر والد صاحب دنیا سے ناراض چلےجائیں، لیکن نارضی اس وجہ سے تھی کہ ایک طرف والدہ ناراض ہو رہی تھیں تو مجھے اب بہت دکھ ہورہا ہے،  مجھے کوئی کفارہ بتادیں!

جواب کا متن:

واضح رہے کہ اللہ رب العزت نے قرآنِ مجید میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کی نافرمانی کو اکبر کبائر میں شمار کیا ہے، نیز رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ رب العزت کی رضا و خوشنودی کو والد کی رضا مندی کے ساتھ مشروط کیا ہے، جیساکہ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے:
’’عن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: رضا الله في رضا الوالد وسخط الله في سخط الوالد. رواه ابن حبان في صحيحه. وعن ابن مسعود أنه سأل النبي صلى الله عليه وسلم: أي العمل أحب إلى الله تعالى قال: الصلاة على وقتها، قلت: ثم أي؟ قال: بر الوالدين. قلت: ثم أي؟ قال: الجهاد في سبيل الله. رواه البخاري ومسلم. وعنأبي هريرة رضي الله عنه قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله من أحق الناس بحسن صحابتي؟ قال: أمك. قال: ثم من؟ قال: أمك. قال: ثم من؟ قال: أمك. قال: ثم من؟ قال: أبوك. رواه البخاري ومسلم. قال صلى الله عليه وسلم أيضاً: ألا أنبئكم بأكبر الكبائر؟ ثلاثاً، قلنا: بلى يا رسول الله، قال: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وكان متكئاً فجلس فقال: ألا وقول الزور وشهادة الزور. فما زال يكررها حتى قلنا: ليته سكت. رواه البخاري ومسلم‘‘. 

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کی رضا والد کی رضا میں ہے، اور اللہ کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: کون سا عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز اپنے وقت میں ادا کرنا۔ میں نے عرض کیا: پھر کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: والدین کے ساتھ حسنِ سلوک۔ میں نے عرض کیا: پھر کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول لوگوں میں کون میرے حسنِ مصاحبت کا زیادہ حق دار ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا: پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے عرض کیا: پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا: پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پھر تمہارے والد۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آگاہ رہو! کیا میں تمہیں گناہوں میں سے سب سے بڑے گناہ نہ بتاؤں؟ تین مرتبہ آپ ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمائی۔ ہم (صحابہ) نے کہا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، اور والدین کی نافرمانی کرنا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اس ارشاد کے وقت) تکیہ لگائے تشریف فرماتھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (تکیے سے ہٹ کر) بیٹھ گئے اور فرمایا: آگاہ رہو! اور جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی، اور اس جملے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل دھرانے لگے ۔۔۔الخ

لہذا ناراضی  کی حالت میں والد صاحب کے گزرجانے کی صورت میں اب آپ کو چاہیے کہ ان کے لیے صدقہ جاریہ کا انتظام کردیں، اور جتنا ہو سکے ان کے لیے دعا اور ایصالِ ثواب کرتے رہیں، اور ان کے قریبی رشتہ داروں اور دوست احباب کے ساتھ صلہ رحمی و حسنِ سلوک کرتے رہیں۔ اور خود بھی جتنے زیادہ ہوسکے نیک اعمال کرتے رہیں۔ فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144004200594
تاریخ اجراء :12-01-2019