بیوی مریض ہو تو شوہر پر اس کے لیے خادم / خادمہ رکھنے کا حکم

سوال کا متن:

میں اپنی والدہ اور اہلیہ سے بہت محبت کرتا ہوں، لیکن میں دونوں کی وجہ سے بہت پریشان رہتا ہوں، اہلیہ کہتی ہے کہ والدہ سارا دن لیٹی رہتی ہیں، کوئی کام نہیں کرتیں، اہلیہ کا آپریشن ہوا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ والدہ اس کا کاموں میں ہاتھ بٹا سکتی ہیں، لیکن میری ان سے کہنے کی ہمت نہیں ہوتی، کہیں ناراض نہ ہو جائیں اور الگ نہ ہو جائیں، مجھے بتائیں کہ میں کیا کروں کہ میری والدہ میرہ اہلیہ کا احساس کرنے لگیں؟

جواب کا متن:

فقہاء نے صراحت فرمائی ہے کہ اگر کسی شخص کی بیوی بیمار ہو اور گھر کے کام کاج خود نہ کر سکتی ہو تو  شوہر پر لازم ہے کہ وہ بیوی کے لیے ایک کام کرنے والا ملازم/ خادمہ مہیا کرے جو گھر کے کام کاج انجام دے، لہٰذا آپ کو چاہیے کہ بصورتِ وسعت آپ اپنے گھر کے لیے ایک خادم رکھ لیں، والدہ سے اس عمر میں گھر کے کاموں کا کہنا مناسب نہیں، بلکہ اس عمر میں جتنا ہو سکے ان کی خدمت کریں اور اس کو اپنی سعادت سمجھیں، چہ جائے کہ آپ ان سے گھر کے کام کرنے کی امید رکھیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 588):
" (قوله: وتجب لخادمها المملوك لها)؛ لأن كفايتها واجبة عليه، وهذا من تمامها؛إذ لا بد منه، هداية، ويعلم منه أنها إذا مرضت وجب عليه إخدامها ولو كانت أمةً، وبه صرح الشافعية، وهو مقتضى قواعد مذهبنا؛ ولم أره صريحاً وإن علم من كلامهم، رملي. قلت: هذا ظاهر على خلاف الظاهر. ففي البحر: قيل: هو أي الخادم كل من يخدمها حراً كان أو عبداً، ملكاً لها أو له أو لهما أو لغيرهما، وظاهر الرواية عن أصحابنا الثلاثة كما في الذخيرة: أنه مملوكها، فلو لم يكن لها خادم لا يفرض عليه نفقة خادم؛ لأنها بسبب الملك، فإذا لم يكن في ملكها لا تلزمه نفقته. اهـ. ثم قال: وبهذا علم أنه إذا لم يكن لها خادم مملوك لا يلزمه كراء غلام يخدمها، لكن يلزمه أن يشتري لها ما تحتاجه من السوق كما صرح به في السراجية. اهـ إلا أن يقال: هذا في غير المريضة؛ لأنه إذا اشترى لها ما تحتاجه تستغني عنه، بخلاف المريضة إذا لم تجد من يمرضها فيكون من تمام الكفاية الواجبة على الزوج".
فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :143909201440
تاریخ اجراء :18-07-2018