دوسری بیوی کی باری میں رات کو دو گھنٹے کے لیے پہلی بیوی کے پاس جانے کا حکم

سوال کا متن:

میری دو بیویاں ہیں ، پہلی بیوی سے میرے چار بچے ہیں،  جب کدوسری بیوی سے اس وقت کوئی اولاد نہیں،  دوسری بیوی کے اپنے پہلے شوہر سے چار بچے ہیں،  میں پہلی بیوی کے پاس دوسری کی رات میں دو گھنٹے کے لیے جاتا ہوں، تاکہ بچوں سے مل لوں اور اگر ان کی یا پہلی بیوی کی کوئی ضرورت ہو تو وہ پوری کر دوں ،  تقریباً نو سے گیارہ بجے کا وقت دیتا ہوں،  کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب کا متن:

شریعت نے دونوں بیویوں میں برابری کرنے کا حکم دیا ہے، اس کا تقاضا یہ ہے کہ اگر آپ دوسری بیوی کی باری میں رات کو دو گھنٹے (نو سے گیارہ) پہلی بیوی کے پاس جاتے ہیں تو پہلی بیوی کی باری میں بھی رات کو دو گھنٹے کا وقت دوسری بیوی کو دیا کریں، ورنہ دوسری بیوی کی حق تلفی لازم آئے گی، البتہ اگر دوسری بیوی کی طرف سے اپنی باری میں آپ کو  رات میں دوسری بیوی کے پاس دو گھنٹے کے لیے جانے کی  مطلقاً اجازت ہو تو پھر پہلی بیوی کی باری میں رات کو دوسری کی پاس آنا ضروری نہیں ہے ۔

مشكاة المصابيح (2/ 964):

"وعنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يسأل في مرضه الذي مات فيه: «أين أنا غداً؟» يريد يوم عائشة، فأذن له أزواجه يكون حيث شاء، فكان في بيت عائشة حتى مات عندها. رواه البخاري".

ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ  رسول اللہ ﷺ  اپنے مرض الوفات میں پوچھا کرتے کہ میں کل کہاں ہوں گا؟ یعنی حضرت عائشہ کے دن کا انتظار ہوتا  تھا، تو آپ ﷺ کی ازواج مطہرات نے  اجازت دے دی کہ آپ ﷺ جس بیوی کے پاس رہنا چاہیں وہاں رہیں، تو پھر وفات تک آپ ﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں رہے۔

مشكاة المصابيح (2/ 965):

"وعن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا كانت عند الرجل امرأتان فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة وشقه ساقط» . رواه الترمذي وأبو داود والنسائي وابن ماجه والدارمي".

ترجمہ: حضور ﷺ نے فرمایا کہ جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان کے درمیان برابری نہ کرے تو وہ قیامت کے دن ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کا آدھا دھڑ ساقط اور مفلوج ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 201):

"(يجب) وظاهر الآية أنه فرض، نهر (أن يعدل) أي أن لا يجور (فيه) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة، بل يستحب.

 (قوله: وفي الملبوس والمأكول) أي والسكنى، ولو عبر بالنفقة لشمل الكل. ثم إن هذا معطوف على قوله: فيه، وضميره للقسم المراد به البيتوتة فقط؛ بقرينة العطف، وقد علمت أن العدل في كلامه بمعنى عدم الجور لابمعنى التسوية؛ فإنها لا تلزم في النفقة مطلقاً. قال في البحر: قال في البدائع: يجب عليه التسوية بين الحرتين والأمتين في المأكول والمشروب والملبوس والسكنى والبيتوتة، وهكذا ذكر الولوالجي. والحق أنه على قول من اعتبر حال الرجل وحده في النفقة. وأما على القول المفتى به من اعتبار حالهما فلا؛ فإن إحداهما قد تكون غنيةً والأخرى فقيرةً، فلا يلزم التسوية بينهما مطلقاً في النفقة. اهـ. وبه ظهر أنه لا حاجة إلى ما ذكره المصنف في المنح من جعله ما في المتن مبنياً على اعتبار حاله (قوله: والصحبة) كان المناسب ذكره عقب قوله: في البيتوتة؛ لأن الصحبة أي المعاشرة والمؤانسة ثمرة البيتوتة. ففي الخانية: ومما يجب على الأزواج للنساء: العدل والتسوية بينهن فيما يملكه، والبيتوتة عندهما للصحبة، والمؤانسة لا فيما لا يملكه وهو الحب والجماع".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 207):

"(ويقيم عند كل واحدة منهن يوماً وليلةً) لكن إنما تلزمه التسوية في الليل، حتى لو جاء للأولى بعد الغروب وللثانية بعد العشاء فقد ترك القسم، ولا يجامعها في غير نوبتها، وكذا لا يدخل عليها إلا لعيادتها ولو اشتد، ففي الجوهرة: لا بأس أن يقيم عندها حتى تشفي أو تموت، انتهى، يعني إذا لم يكن عندها من يؤنسها.

 (قوله: لكن إلخ) قال في الفتح: لا نعلم خلافاً في أن العدل الواجب في البيتوتة والتأنيس في اليوم والليلة، وليس المراد أن يضبط زمان النهار، فبقدر ما عاشر فيه إحداهما يعاشر الأخرى، بل ذلك في البيتوتة، وأما النهار ففي الجملة اهـ يعني لو مكث عند واحدة أكثر النهار كفاه أن يمكث عند الثانية ولو أقل منه بخلافه في الليل، نهر (قوله: ولا يجامعها في غير نوبتها) أي ولو نهاراً ط". فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :143909201700
تاریخ اجراء :04-08-2018