1. دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
  2. حقوق و معاشرت
  3. باہمی حقوق
  4. میاں ، بیوی کے حقوق

شنیلا نام رکھنا۔ نیزاللہ کے کن صفاتی ناموں کے ساتھ عبد لگانا لازمی ہے؟

سوال

1."شنیلا" یا "شنیلہ" ان میں کون سا نام ٹھیک ہے؟ اور ان کے معنی کیا ہیں؟

2.اللہ تعالی کے ناموں کے ساتھ عبد لگانا ضروری ہیں جو اللہ کے 99 نام ہیں جیسا کہ عزیز.جبار.غفار.وھاب.باسط.بصیر.شکور؟

3.میرا نام محمد عمران تھا، لیکن ڈاکومنٹ پر "عمران محمد" ہے، اس سے کوئی فرق تو نہیں پڑتا؟

4۔"محمد"  اگر نام کے بعد لکھیں تو اس کا کیا حکم ہے، جیسا کہ "نورمحمد" ، "علی محمد"؟

جواب

1. "شنیل" کے معنی ہیں: ریشم کی ایک قسم کا کپڑا ۔ معنی کے حساب سے یہ نام بہتر نہیں، اس کے بجائے کوئی دوسرا نام تجویز کرلیں۔ اگر لڑکی کا نام رکھنا ہے تو صحابیات رضی اللہ عنہن یا نیک مسلمان خواتین کے ناموں میں سے کوئی نام یا اچھے معنیٰ والا عربی نام منتخب کریں۔

 2۔ اللہ تعالی کے کن ناموں کے ساتھ "عبد " لگانا ضروری ہے؟  اس کی تفصیل میں مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

" اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام دو طرح کے ہیں: پہلی قسم:وہ نام ہیں جوقرآن و حدیث میں غیراللہ کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لیے بھی۔ غنی، حق، حمید، طاہر، جلیل، رحیم، رشید، علی، کریم، عزیز وغیرہ کا استعمال قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ بندوں کے لیے بھی ہواہے؛ لہٰذا ایسے صفاتی نام بندوں کے لیے بھی رکھے جاسکتے ہیں، اور ان ناموں کے ساتھ عبد لگانا ضروری نہیں۔ دوسری قسم:وہ نام ہیں جوقرآن و حدیث میں صرف اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوئے ہیں اور غیراللہ کے لیے ان کا استعمال ثابت نہیں ہے۔ "رحمن، سبحان، رزّاق، خالق، غفار " قرآن وسنت میں اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کے لیے نہیں آتے؛ لہٰذا ان ناموں کے ساتھ کسی کا نام رکھنا ہو تو ان کے ساتھ "عبد" کا لفظ ملانا ضروری ہے، جیسے: عبدالرحمن، عبدالسبحان، عبدالرزاق، عبدالخالق، عبدالغفار وغیرہ۔ بعض لوگ لاعلمی یا لاپروائی کی بنا پر عبدالرحمن کو رحمٰن، عبدالرزاق کو رزّاق، عبدالخالق کو خالق، عبدالغفار کو غفار کہہ کر پکارتے ہیں، ایسا کرنا ناجائز ہے۔"

مزید فرماتے ہیں:

’’ایسا کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔ جتنی مرتبہ یہ لفظ پکارا جاتا ہے اتنی ہی مرتبہ گناہِ کبیرہ کا ارتکاب ہوتا ہے اور سننے والا بھی گناہ سے خالی نہیں ہوتا‘‘۔ (تفسیر معارف القرآن، تفسیر آیت ۱۸۰،ص ۱۳۲، ج ۴)

3۔ شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں۔

4۔  "علی محمد" نام درست ہے۔ اصولی بات یہ ہے کہ لفظ "محمد" کو نام کا دوسرا جز بناکر نام رکھنے کی صورت میں اگر پہلے جز کی اضافت لفظ "محمد" کی طرف ہو تو پہلے جز کے معنی کو دیکھ کر مجموعہ نام کا حکم لگایا جائے گا۔ کسی صورت میں معنی نامناسب یا اسلامی عقیدے کے خلاف ہو تو نام رکھنا درست نہیں ہوگا۔  فقط واللہ اعلم


ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144004201086
تاریخ اجراء :09-02-2019

فتوی پرنٹ