بچہ گود لینا

سوال کا متن:

اگر کسی کے گھر اولاد نہ ہو اور کافی عرصہ گزر گیا ہو تو کیا وہ شخص کسی سے اولاد گود لے سکتا ہے؟ بہتر صورت کیا ہے؟ لینا شرع کے اعتبار سے کیسا ہے؟  یا بے اولاد ہی رہے؟ 

جواب کا متن:

اللہ تعالیٰ نےدنیاکی  ہر نعمت ہر انسان کوعطا نہیں کی، بلکہ اس میں فرق رکھا ہے، جس کو جو چاہا نعمت عطا کر دی، ہر آدمی کو اولاد کی نعمت کا میسر آنا ضروری نہیں، چناں چہ اگر کسی شخص کی کوئی اولاد نہ ہو  یا اولاد ہو پھر بھی وہ کسی کو  لے کر پالنا  چاہے تو اس طرح کسی بچے کو لے کر پال لینا جائز ہے، لیکن اس میں چند باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:

ایک بات تو یہ کہ لے پالک بچوں کی نسبت ان کے حقیقی والدین ہی کی طرف کی جائے، جن کی پشت سے وہ پیدا ہوئے ہیں،  اس لیے کہ کسی کو منہ بولا بیٹا بنانے سے شرعاً وہ حقیقی بیٹا نہیں بن جاتا اور نہ ہی اس پر حقیقی اولاد والے اَحکام جاری ہوتے ہیں،  البتہ گود میں لینے والے کو  پرورش ، تعلیم وتربیت  اور ادب واخلاق سکھانے کا ثواب ملے گا،  جاہلیت کے زمانہ  میں یہ دستور تھا کہ لوگ لے پالک اور منہ بولے اولاد کو حقیقی اولاد کا درجہ دیتے تھے ، لیکن اسلام نے اس تصور ورواج کو ختم کرکے یہ اعلان کردیا کہ منہ بولے  اولاد حقیقی اولاد نہیں ہوسکتے، اور   لے پالک اور منہ بولے اولاد کو ان کے اصل والد کی طرف منسوب کرنا ضروری ہے۔

نیز اس میں  اس بات کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہے کہ اگر  گود لینے والا یا والی اس بچے کے لیے نا محرم ہو تو بلوغت کے بعد پردے کا اہتمام کیا جائے، محض گود لینے سے محرمیت قائم نہیں ہوتی۔ البتہ اگر گود لینے والی عورت اس بچے کو رضاعت کی مدت میں دودھ پلادے تو  وہ اس بچے کی رضاعی ماں بن جائے گی، اور اس کا شوہر رضاعی باپ بن جائے گا  یا  گود لینے والے بچے کو  اس عورت کی  بہن  دودھ پلادے تو یہ عورت اس کی رضاعی خالہ بن جائے گی، اس صورت میں گود لینے والی سے بچے کے پردے کا حکم نہیں ہوگا، اسی طرح اگر بچی گود لی ہو  تو  شوہر  کی بیوی یا بہن وغیرہ اس کو مدتِ رضاعت میں دودھ پلادے ۔

تیسرا یہ کہ وراثت کے معاملہ میں بھی گود لینے والے کو باپ کا درجہ نہیں دیا جائے گا۔

ارشاد باری تعالی ہے :

﴿وَما جَعَلَ أَدعِياءَكُم أَبناءَكُم ۚ ذ‌ٰلِكُم قَولُكُم بِأَفو‌ٰهِكُم ۖ وَاللَّهُ يَقولُ الحَقَّ وَهُوَ يَهدِى السَّبيلَ ﴿٤﴾ ادعوهُم لِءابائِهِم هُوَ أَقسَطُ عِندَ اللَّهِ ۚ فَإِن لَم تَعلَموا ءاباءَهُم فَإِخو‌ٰنُكُم فِى الدّينِ وَمَو‌ٰليكُم ۚ وَلَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ فيما أَخطَأتُم بِهِ وَلـٰكِن ما تَعَمَّدَت قُلوبُكُم ۚ وَكانَ اللَّهُ غَفورً‌ا رَ‌حيمًا ﴿٥﴾  سورةالاحزاب

ترجمہ: "اورنہ تمہارے لے پالکوں کوتمہارے بیٹے بنایا ، یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں اور اللہ تعالی توسچی بات فرماتا ہے اور وہ سیدھا راستہ دکھاتا ہے ۔ مومنو! لے پالکوں کو ان کے( اصلی ) باپوں کےنام سے پکارا کرو کہ اللہ کےنزدیک یہ بات درست ہے۔ اگر تم کو ان سےباپوں کے نام معلوم نہ ہوں تو دین میں وہ تمہارے بھائی اور دوست ہیں اور جو بات تم سےغلطی سےہو اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں لیکن جو قصد دل سے کرو ( اس پر مؤاخذہ ہے )اوراللہ بڑا بخشنے ولا نہایت  مہربان ہے ۔‘‘

نبی ﷺ نے فرمایاہے :

"مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، أَوِ انْتَمَى إِلَى غَيْرِ مَوَالِيهِ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ الْمُتَتَابِعَةُ". (سنن ابی داؤد: 5115)

ترجمہ: ’’جو شخص اپنےباپ کے علاوہ کسی اور کا بیٹا ہونے کا دعو ی کرے یا (کوئی غلام ) اپنے آقاؤں کی بجائےدوسروں کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے تو اس پر اللہ تعالی کی مسلسل لعنت ہو "۔

نیز اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے، اور مسلسل اس سے دعائیں مانگتے رہنا چاہیے، کہ اس کی رحمت سے کوئی بعید نہیں ہے کہ وہ کئی سالوں بعد اولاد کی نعمت سے نواز دے۔ فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144008200707
تاریخ اجراء :04-05-2019