بیوی اور ماں کے حقوق

سوال کا متن:

 میری زوجہ جو کے  ٨ ماہ کی حاملہ ہے  وہ اکثر واللّہ اعلم خود یا کسی کے کہنے پر مجھ سے تو بدتمیزی کرتی تھی، جسے میں نظر انداز کر دیتا تھا، لیکن بقر عید کی چاند رات کو اس نے میری والدہ ماجدہ کے سامنے کھانے پر سالن میں گوشت نہ ہونے  پر اعتراض  میں ہانڈی پر ڈھکن زور سے ڈھکا، اور جب میں نے والدہ ماجدہ کے سامنے بات صاف کرنے کے لیے بٹھایا تو زوجہ نے ہاتھ نچا نچا کے اور بدتمیزی سے ان سے بات کی ، اور بات صاف کرنے ، گلہ دور کرنے کے بجائے اٹھ کے چل دی کہ مجھے کل"عید" کا دن گزارنا ہے۔  پھر میرے ماں باپ آکر بات کریں گے، جس پر میں نے اسے اس کے گھر "میکے" چھوڑنے کا کہا تو وہ اپنا سامان رکھتے ہوئے کہنے لگی کہ  اب میرے آنے کی امید نہ  رکھنا، آپ رہیں اپنی ماں بھائیوں  کے ساتھ، میں کچھ نہیں  بولا اور اسے اس کے گھر چھوڑ آیا،  تب سے اب تک وہ وہیں ہے ، اور نہ  اس نے کوئی  رابطہ کیا نہ  میں نے۔

اس تمام صورتِ حال میں یہ  معلوم کرنا تھا کہ  اول یہ کہ میرا شرعی فرض کیا بنتا ہے؟ کیوں کہ اسے لانے پر اس کی بدتمیزی میری والدہ ماجدہ سے اور بڑھ جائے گی اور حالات کے حساب سے اس کے دل میں میری والدہ  ماجدہ  یا بھائیوں کے ساتھ رہنے پر بھی  اعتراض ہے  جب کہ میں اپنی والدہ  ماجدہ  کو نہیں  چھوڑ سکتا؛ کیوں کہ میرے والد رحلت فرماچکے ہیں  اور میں اپنی والدہ  کو نہیں چھوڑ سکتا۔

دوم یہ کہ میری زوجہ حاملہ ہے  اور جو باتیں وہ  کہہ کے گئی  ہے  واپس نہ  آنے کی، تو اب دور رہنے  سے گناہ  کس کے سر ہوگا؟  شرعی روشنی میں راہ نمائی فرما دیں اور خصوصی دعا فرما دیں! نوٹ: یہ  میری دوسری شادی ہے اور پہلی  اولاد ہونے والی ہے۔ میرا گمان ہے  کہ مجھے اسی لیے بلیک میل کیاجا رہا ہے۔

جواب کا متن:

 واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے بیوی اور ماں دونوں کے حقوق بیان کیے ہیں جن کی پاسداری کرنا ہر  ایک کی شرعی ذمہ داری ہے، اختلافات کی اصل وجہ ہر ایک کے  حقوق کو نہ جان کر ان   کی ادائیگی میں کوتاہی کرنا  ہوتاہے؛ لہذا بہتر یہی ہے کہ گھر کا ہر فرد دوسرے کے حق کو پہچانے اور اس کی ادائیگی کی جستجو کرتا رہے،  نیز اللہ رب العزت نے بدگمانی سے منع کیا ہے؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ پر لازم ہے کہ آپ اپنی بیوی سے بدگمان ہونے کے بجائے اس کے حقوق کو سمجھ کر اس کی ادائیگی کی کوشش کریں، نیز والدہ  کے حقوق ادائیگی بھی آپ کی شرعی ذمہ داری ہے؛  لہذا ان کے حق میں کوتاہی کی بھی اجازت نہیں ہے، نیز گھریلو سکون کے لیے فیصل بننے کے بجائے ہر ایک کو اس کا منصب دیتے ہوئے اِفہام و تفہیم سے زندگی گزارنے کی کوشش کریں۔

رہی بات گناہ کی تو  اگر بیوی کی جانب سے سرکشی تھی اور وہ اپنے شوہر کی نافرمانی کر کے میکے جا بیٹھی ہے تو وہ گناہ گار ہوگی، اور اگر بیوی کی طرف سے سرکشی نہیں تھی تو وہ گناہ گار نہیں ہوگی۔ فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :143909202247
تاریخ اجراء :04-09-2018