گیس کی قلت کی وجہ سے گیس کمپریسر استعمال کرنا

سوال کا متن:

 ہمارے گاؤں میں گیس بہت کم آتی ہے جس کی وجہ سے بہت پریشانی ہے، گاؤں میں اکثر لوگوں نے گیس کے لیے کمپریسر لیا ہوا ہے جو گیس کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور کمی کو پورا کر دیتا ہے تو اس حالت میں گیس کا بل ڈبل آتا ہے اور یہ اس صورت میں استعمال ہوتا ہے جب گیس بالکل کم ہو، اب کیا اس کا استعمال جائز ہے؟

جواب کا متن:

صورتِ مسئولہ میں  جب گیس کی قلت ہو تو زیادہ گیس کھینچنے کے لیے گھرمیں گیس کمپریسر لگانا شرعاً جائز نہیں ہے، اس لیے کہ اس سے دوسرے لوگوں کو تکلیف اور ضرر لاحق ہوتا ہے کہ آس پاس لوگوں کو گیس کی سپلائی متاثر ہوتی ہے اور جو چیز عام لوگوں کی تکلیف کا ذریعہ بنے اس کا استعمال شرعاً ممنوع ہوتا ہے، اسی طرح  گیس کمپریسر  کئی طرح کے حادثات کا سبب بھی بنتا ہے ، نیز یہ کہ گیس کمپریسر کا استعمال قانوناً بھی جرم ہے؛ اس لیے اس کے استعمال سے اجتناب لازم ہے۔

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن أبي صرمة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «من ضار أضر الله به، ومن شاق شق الله عليه»". (2/ 785،  کتاب الاحکام، باب من بنى في حقه ما يضر بجاره، ط: دار إحياء الكتب العربية)

فیض القدیرمیں ہے:

"(لا ضرر) أي لايضر الرجل أخاه فينقصه شيئاً من حقه (ولا ضرار) فعال بكسر أوله أي لايجازي من ضره بإدخال الضرر عليه بل يعفو، فالضرر فعل واحد والضرار فعل اثنين أو الضرر ابتداء الفعل والضرار الجزاء عليه والأول إلحاق مفسدة بالغير مطلقاً والثاني إلحاقها به على وجه المقابلة، أي كل منهما يقصد ضرر صاحبه بغير جهة الاعتداء بالمثل، وقال الحرالي: الضر بالفتح والضم ما يؤلم الظاهر من الجسم وما يتصل بمحسوسه في مقابلة الأذى وهو إيلام النفس وما يتصل بأحوالها وتشعر الضمة في الضر بأنه عن قهر وعلو والفتحة بأنه ما يكون من مماثل أو نحوه اه. وفيه تحريم سائر أنواع الضرر إلا بدليل لأن النكرة في سياق النفي تعم وفيه حذف أصله لا لحوق أو إلحاق أو لا فعل ضرر أو ضرار بأحد في ديننا أي لايجوز شرعاً إلا لموجب خاص". (فيض القدير  للمناوی (6/ 431) حرف "لا"،  برقم: 13474، ط: المكتبة التجارية الكبرى – مصر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) كره (احتكار قوت البشر) كتبن وعنب ولوز (والبهائم) كتبن وقت (في بلد يضر بأهله)؛ لحديث: «الجالب مرزوق والمحتكر ملعون» فإن لم يضر لم يكره".

 وفي الرد: "والتقييد بقوت البشر قول أبي حنيفة ومحمد وعليه الفتوى، كذا في الكافي، وعن أبي يوسف: كل ما أضر بالعامة حبسه، فهو احتكار، وعن محمد الاحتكار في الثياب، ابن كمال.

(قوله: كتين وعنب ولوز) أي مما يقوم به بدنهم من الرزق ولو دخناً لا عسلاً وسمناً، در منتقى". (6/ 398،  کتاب الحظر والإباحة، فصل في البیع، ط: سعید) فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144004201191
تاریخ اجراء :14-02-2019