غیر مسلم کو بھائی کہنا

سوال کا متن:

کیا ہندو کو بھائی  کہا جا سکتا ہے؟ اسلام میں اس کی کیا اجازت ہے؟

جواب کا متن:

بھائی بندی یا اخوت کااصل معنی ولادت میں شریک ہونا ہے، لیکن کبھی کبھار کسی اور شریک کے لیے بھی اس کااستعمال ہوتا ہے، جیسا کہ قبیلہ، پیشہ، دین، معاملات یا محبت یا کسی اور تعلق کی بنا پر دو شریکوں کو بھائی کہا جاتا ہے، اور ہر وہ چیز جس میں اتفاق ہو اس پر بھی "اخوۃ" یعنی بھائی چارہ کا اطلاق کردیا جاتا ہے،  اور سب سے مضبوط بھائی چارہ دین کی نسبت سے ہے؛ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو صرف مؤمنوں کے درمیان قائم رکھا نہ کسی اور کے درمیان۔جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے :

{إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَةٌ} [الحجرات: 10]   (ترجمہ) ’’ بے شک مؤمن آپس میں بھائی ہیں ۔" (سورۂ حجرات ۱۰)

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بھائی چارے کو مسلمانوں کے درمیان میں محصور کردیا، اور کافروں سے مسلمانوں کے بھائی چارے کو الگ کردیا ‘‘۔ (کتاب الام ۴۰/۶)

اور یہ اخوت صرف اہلِ ایمان کے لیے ثابت ہے ، اور کافروں اور غیر مسلموں کے ساتھ معاشرتی تعلقات اور حسنِ سلوک اور بیع وشرا وغیرہ تو صحیح ہیں، لیکن ان کے ساتھ دلی اور قریبی تعلقات اور دوستیاں کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

مذکورہ تفصیل کے بعد جواب کا حاصل یہ ہے کہ :

1۔کافر اگر نسبی بھائی ہو ، جیسے دو بھائی کافر تھے ان میں سے ایک مسلمان ہوگیا، اور دوسرا کافر ہی ہے، تو مسلمان بھائی نسبی بھائی ہونے کے ناطے غیر مسلم کو بھائی کہہ سکتا ہے۔

2۔ کافر نسبی بھائی نہیں ہے، اور ان سے دلی مودت ومحبت اور تعلقات بھی نہیں ہیں، اور دینی  اور ایمانی بھائی بھائی بھی نہ سمجھا جائے ، محض معاشرتی برتاؤ   کی وجہ سے اس کو بھائی کہہ دیا جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔

3۔۔کافر نسبی بھائی نہیں ہے، اور اس کو "بھائی" قریبی تعلقات اور محبت کی وجہ سے کہا جائے، اور اس سے بھائی چارگی کا مقصد دلی تعلقات ،اور محبت کی ترجمانی ہوتو یہ جائز نہیں ہے۔

4۔ کافر کو دینی اور ایمانی بھائی سمجھا جائے، یہ بھی جائز نہیں ہے۔ بلکہ دینی اور ایمانی بھائی صرف اور صرف مسلمان ہیں۔ اس کی توضیح میں قاضی بیضاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ’’اس لیے   ان کی اصل ایمان ہے ، جو اَبدی اور اَزلی حیات کی موجب ہے‘‘۔

خلاصہ یہ ہے کہ غیر مسلم کو ملت ،مذہب، اور محبت ومودت کے لحاظ سے بھائی نہیں کہہ سکتے ،البتہ قومیت ، وطنیت اور نسب  کی بنا پر بھائی  کہا جاسکتا ہے۔

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (12/ 289):
’’ قَوْله: (الْمُسلم أَخُو الْمُسلم) ، يَعْنِي أَخُوهُ فِي الْإِسْلَام، وكل شَيْئَيْنِ يكون بَينهمَا اتِّفَاق تطلق عَلَيْهِمَا اسْم الْأُخوة. وَقَوله: الْمُسلم، تنَاول الْحر وَالْعَبْد والبالغ والمميز‘‘. 

دليل الفالحين لطرق رياض الصالحين (3/ 18):
’’ (وعن ابن عمر رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: المسلم أخو المسلم) قال تعالى: {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَةٌ} (الحجرات: 10) قال البيضاوي: أي من حيث إنهم منسوبون إلى أصل وهو الإيمان الموجب للحياة الأبدية اهـ. ورتب على هذه الأخوة المقتضية لمزيد الشفقة والتناصر والتعاون‘‘. 

الأم للشافعي (6/ 40):
’’ وقوله {فَمَنْ عُفِيَ لَه مِنْ أَخِيْهِ شَيْءٌ} [البقرة: 178]؛ لأنه جعل الأخوة بين المؤمنين فقال: {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَةٌ} [الحجرات: 10] وقطع ذلك بين المؤمنين والكافرين. ودلت سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم على مثل ظاهر الآية‘‘.
 فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144001200909
تاریخ اجراء :09-11-2018