تین طلاق کے بعد بیوی کو ساتھ رکھنے والے سے قطع تعلق کا حکم

سوال کا متن:

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اور مفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ : ہمارے ایک عزیز نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دیں اور پھر غیر مقلدین کے کہنے پر وہ بغیر حلالہ کے اپنی بیوی واپس لے آیا۔ اور ہم اہلِ سنت و الجماعت سے تعلق رکھنےکی بنا پر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حرام ہے ,لیکن اب چند چیزیں طلبِ حل ہیں:

(1) کیا ہم ان کے ساتھ قطعِ تعلق کر لیں؟

(2) اگر قطعِ تعلق کرتےہیں تو کس بنیاد پراور کیا صورت ہونی چاہیے؟

(3)ایک بندہ اعتراض کر رہا ہےکہ : مطلقہ کی اولادابھی چھوٹی ہے ؛ اس لیے انسانی ہمدردی کا تقاضا ہے کہ ا س سے قطع تعلق نہیں کیا جائے؛ کیونکہ معاشرے میں اس سے بھی بڑے بڑے گناہ ہو رہے ہیں، لیکن ان کی وجہ سےکوئی قطع تعلق نہیں کرتا۔ اب اس بندہ کے لیے ہمارا کیا جواب ہونا چاہیے؟

جواب کا متن:

1۔2۔تین طلاقیں دینے کے باوجودمطلقہ  بیوی کو ساتھ رکھناسخت گناہ اورحرام ہے اور چاروں مذاہب کے متفقہ فیصلہ کے  خلاف ہے۔مطلقہ ثلاثہ کو اپنے پاس رکھنے والاشخص حرام کاری کامرتکب ہے، ایسے شخص کوراہِ راست پر لانے کے لیے ہر ممکن طریقہ اختیارکرناچاہیے،سمجھانے کے باوجودایساشخص جب تک باز نہیں آتااور علیحدگی اختیا نہیں کرتا اس سے میل جول  اور تعلقات ختم کردینےچاہییں۔(فتاویٰ رحیمیہ 8/270)

3۔ایسے لوگ جو علانیہ گناہوں کاارتکاب کرنے والے ہوں اوراپنے عمل سے باز نہ آتے ہوں ان سے میل جول،بات چیت ترک کردیناشریعت میں ثابت ہے،لہذا اصل ہمدردی یہی ہے کہ انہیں راہِ راست پرلانے اور دیگرلوگوں کی عبرت کے لیے ان سے قطع تعلق کیاجائے ،ایسے لوگوں کے ساتھ  تعلق قائم رکھ کر ہمدردی کرنا  گناہ اور غلط کاموں میں معاونت اوران کی حوصلہ افزائی ہے۔

فتح الباری میں ہے:

''( قوله باب ما يجوز من الهجران لمن عصى )

 أراد بهذه الترجمة بيان الهجران الجائز لأن عموم النهي مخصوص بمن لم يكن لهجره سبب مشروع فتبين هنا السبب المسوغ للهجر وهو لمن صدرت منه معصية فيسوغ لمن اطلع عليها منه هجره عليها ليكف عنها''۔(فتح الباری،10/497،ط:دارالمعرفۃ بیروت) فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :143811200021
تاریخ اجراء :03-08-2017