اکیڈمی میں غیر مسلموں کے ساتھ کھانا کھانا

سوال کا متن:

ہماری اکیڈمی ہے جس کے ساتھ ایک بڑی مسجد بھی ہے، 20 افراد کام کرتےہیں، اکیڈمی میں دینی تعلیمی سر گرمیاں ہوتی ہیں، صفائی ستھرائی  کے لیے  2 christian کام کرتے ہیں،  10 ۔12 سال سے کھانا ہم الگ کھاتے ہیں، وہ الگ کھاتے ہیں خوشی سے ۔انچارج  کہتاہے یہ بھی ہمارے ساتھ کھانا کھائے ،ایک ساتھ بیٹھے ،حال آں کہ انتظامی حوالے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، بعض ساتھی دل میں اچھا نہیں سمجھتے، مشورہ میں آپ کے دارلافتاء سے راہ نمائی کا طے ہوا!

جواب کا متن:

غیر مسلم  جو کہ مرتد نہ ہو اور اہلِ حرب میں سے نہ ہو ، اس سے معاملات کرنا اور اس کے ساتھ ظاہری خوش خلقی سے پیش آنا  اور اس کی غم خواری کرنا جائز ہے،البتہ دلی دوستی لگانا جائز نہیں۔

اگر غیر مسلم کے ہاتھ یا منہ میں کوئی نجاست وناپاکی نہ ہو، جیسے: شراب وغیرہ تو اس کا جھوٹا کھانا کھانا یا پینے کی کوئی چیز پینا جائز ہے، بشرطیکہ وہ کھانے یا پینے کی چیز فی نفسہ حلال وجائز ہو، حرام وناپاک نہ ہو۔لہذا ادارے میں غیر مسلموں کے ساتھ کھانا پڑے تو یہ جائز ہے، البتہ اسے عادت بنانا درست نہیں ہے؛ کیوں کہ اس صورت میں خدا کے دوست اور دشمن کا فرق باقی نہیں رہتا ہے۔

غیر مسلم کے برتن میں کھانے کے حکم میں یہ تفصیل ہے کہ اگر  برتن پاک ہوں اور یقین ہو کہ وہ کوئی غلط چیز استعمال نہیں کرتا تو اس کے برتن میں یا اس کا کھانا  جائز ہے، اگر علم نہ ہو تو اس میں کراہت ہے، لیکن کھالیا تو وہ حرام نہیں ہوگا، اور اگر علم ہو کہ  وہ کھانے پینے کی چیزوں میں نجس چیز ملاتا ہے یا اس کے برتن ناپاک ہیں تو  ایسی صورت میں کھانا جائز نہیں ہے۔

صورتِ مسئولہ میں صفائی پر مامور غیر مسلم کے کپڑوں پر گندگی وغیرہ یا کسی وجہ سے کسی کو طبعی  کراہت ہوتی ہو  تو انچارج کے لیے دیگر مسلم عملہ کو ان کے ساتھ کھانے پر مجبور کرنا درست نہیں ہے۔

" الأول من الأقسام: سؤر طاهر مطهر بالاتفاق من غیر کراهة في استعماله، وهوما شرب منه آدمي لیس بفمه نجاسة ... ولا فرق بین الصغیر والکبیر والمسلم والکافر والحائض والجنب." (نورالإیضاح مع شرحه مراقي الفلاح، الطبعة الأولیٰ : ص ۱۸ ط مصطفیٰ البابي الحلبي وأولاده بمصر)

"وإذا تنجس فمه فشرب الماء من فوره تنجس.‘‘ (حواله بالا)
" وأما نجاسة بدنه فالجمهور علی أنه لیس بنجس البدن والذات؛ لأن الله تعالیٰ أحل طعام أهل الکتاب". (تفسیر ابن کثیر تحت قوله تعالیٰ: ﴿اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ﴾ الآیة : ۲/۳۴۶ ط سهیل أکادمي)

الفتاوى الهندية (5/ 347):
’’قال محمد - رحمه الله تعالى -: ويكره الأكل والشرب في أواني المشركين قبل الغسل، ومع هذا لو أكل أو شرب فيها قبل الغسل جاز، ولايكون آكلاً ولا شارباً حراماً، وهذا إذا لم يعلم بنجاسة الأواني، فأما إذا علم فإنه لا يجوز أن يشرب ويأكل منها قبل الغسل، ولو شرب أو أكل كان شارباً وآكلاً حراماً‘‘. 
فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144004200933
تاریخ اجراء :31-01-2019