ہندو کے ساتھ کھانا

سوال کا متن:

ہم جہاں کام کرتے ہیں وہاں ہندو بھی کام کرتے ہیں ہمارے باس نے انہیں اچھا رکھا ہوا ہے ایک ہی گلاس میں پانی پینا  ساتھ کھانا کھانا ، ہمیں بھی مجبورا پینا پڑتا ہے کیا یہ درست ہے؟

جواب کا متن:

غیر مسلم  جو کہ مرتد نہ ہو اور اہلِ حرب میں سے نہ ہو ، اس سے معاملات کرنا اور اس کے ساتھ ظاہری خوش خلقی سے پیش آنا  اور اس کی غم خواری کرنا جائز ہے۔البتہ دلی دوستی لگانا جائز نہیں۔

نیز غیر مسلم کا جوٹھا بھی پاک ہے، بشرطیکہ اس وقت اس نے  کوئی  ناپاک چیز  نہ کھائی یا پی ہو، جیسے شراب یا سور وغیرہ ۔لہذا ہندوؤں کے ساتھ کھانا یا ان کے استعمال کردہ برتن کااستعمال وغیرہ  جائز ہے،اس میں کوئی قباحت نہیں۔ لیکن ان سے دوستی لگانا درست نہیں۔ قرآن میں اس کی ممانعت آئی ہے۔عام لوگوں کی طرح پیش آنا چاہیے۔

" الأول من الأقسام: سؤر طاهر مطهر بالاتفاق من غیر کراهة في استعماله، وهوما شرب منه آدمي لیس بفمه نجاسة ... ولا فرق بین الصغیر والکبیر والمسلم والکافر والحائض والجنب." (نورالإیضاح مع شرحه مراقي الفلاح، الطبعة الأولیٰ : ص ۱۸ ط مصطفیٰ البابي الحلبي وأولاده بمصر)

"وإذا تنجس فمه فشرب الماء من فوره تنجس.‘‘ (حواله بالا)
" وأما نجاسة بدنه فالجمهور علی أنه لیس بنجس البدن والذات؛ لأن الله تعالیٰ أحل طعام أهل الکتاب". (تفسیر ابن کثیر تحت قوله تعالیٰ: ﴿اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ﴾ الآیة : ۲/۳۴۶ ط سهیل أکادمي)

﴿ لَايَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكٰفِرِينَ أَوْلِيَآءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّٰهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقَاةً وَّيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللّٰهِ الْمَصِيرُ﴾ [آل عمران:28]
ترجمہ: مسلمانوں کو چاہیے کہ کفار کو (ظاہراً یا باطناً) دوست نہ بناویں  مسلمانوں (کی دوستی) سے تجاوز کرکے ، اور جو شخص ایسا (کام) کرے گا سو وہ شخص اللہ کے ساتھ (دوستی رکھنے کے) کسی شمار میں نہیں، مگر ایسی صورت میں کہ تم ان سے کسی قسم کا (قوی) اندیشہ رکھتے ہو۔ اور اللہ تعالیٰ تم کو اپنی ذات سے ڈراتا ہے اور خدا ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ (28)

 کفار کے ساتھ تین قسم کے معاملے ہوتے ہیں: موالات یعنی دوستی۔ مدارات: یعنی ظاہری خوش خلقی۔ مواساۃ:  یعنی احسان و نفع رسانی۔ موالات تو کسی حال میں جائز نہیں، اور مدرات تین حالتوں میں درست ہے۔ ایک دفع ضرر کے واسطے، دوسرے اس کافر کی مصلحت دینی یعنی توقعِ ہدایت کے واسطے، تیسرے اکرامِ ضیف کے لیے، اور اپنی مصلحت و منفعتِ مال و جان کے لیے درست نہیں، اور مواسات کا حکم یہ ہے کہ اہلِ حرب کے ساتھ ناجائز ہے اور غیر اہلِ حرب کے ساتھ جائز۔ (بیان القرآن) فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :143909201564
تاریخ اجراء :28-07-2018