مختلف ممالک کی کرنسیوں کا کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ کا حکم

سوال کا متن:

ہمیں آپ کے سابقہ فتاویٰ جات کی بنا پر معلوم ہوا ہے کہ خاص شرائط کی بنا پر کرنسی ایکسچینج جائز ہے۔ مگر یہاں ایک عجیب مسئلہ ہے۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ فرض کریں کہ عبداللہ اور عبدالرحمن آپس میں  برابر پیسے ڈال کر اس سے پاکستان میں  موجودہ ریٹ پر پاکستانی کرنسی دے کر کرنسی ایکسچینج والوں سے سعودی ریال خریدتے ہیں۔ پھر جب یہاں  پاکستان  سے کوئی بندہ سعودی عرب جاتا ہے تو وہ اس کو  وہ سعودی ریال دے کر سعودی عرب بھیجتے ہیں کیوں کہ قانون کی رو سے ایک بندہ بیس ہزار ریال اپنے ساتھ لے جا سکتا ہے۔ اس مد میں سعودیہ جانے والے شخص کو یہ لوگ کچھ پیسے  دیتے ہیں یا ائیر پورٹ تک فری پک اینڈ ڈراپ کی سہولت دیتے ہیں اور یہ اکثر ریال لے جانے والے کے مطالبہ پر ہوتا ہے یا بعض اوقات یہ لوگ خود انہیں یہ سہولت دیتے ہیں ؛کیوں کہ وہ ریال لے جانے کی خدمات فراہم کر رہا ہوتا ہے۔ وہ بندہ سعودی ریال لے کر عبداللہ اور عبدالرحمن کے لوگوں کو  وہ ریال حوالہ کر دیتا ہے، اور جب ریال کے ریٹ زیادہ ہو جاتے ہیں  تو وہ ریال بیچ کر پاکستانی کرنسی میں واپس پاکستان ھنڈی کے ذریعے بھیجتے ہیں اور اس مد میں انہیں منافع ہو جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ:

۱۔ کیا یہ کاروبار حلال ہے ؟ ۲۔ کچھ لوگ عبداللہ اور عبدالرحمن کو پیسے دیتے ہیں تا کہ وہ پیسے بھی یہ لوگ کاروبار میں لگائیں۔ اور پھر یہ حساب کتاب کے بعد منافع دیتے ہیں، اگر نقصان ہو جائے ؛کیوں کہ بعض اوقات ریال کے ریٹ گر جاتے ہیں  اور یہ لوگ زیادہ عرصہ کے لیے  ریال اپنے پاس نہیں رکھتے؛ کیوں کہ انہوں نے پھر انویسٹ کرنا ہوتا ہے۔

تو اگر اوپر بیان کردہ صورتِ حال حلال ہے تو کیا ان لوگوں کے لیے  بھی حلال ہے جو کہ عبداللہ اور عبدالرحمن کو کاروبار کے لیے  پیسے دیتے ہیں۔ قرآن و سنت و حدیث و فقہ کی روشنی میں مدلل جواب دے کر اجر دارین حاصل کریں۔ جزاک اللہ خیرا

جواب کا متن:

ذکر کردہ کاروبار عبداللہ ،عبد الرحمن کے لیے بھی  حلال ہے اور ان کے ساتھ رقم لگانے والوں کے لیےبھی حلال ہے،  بشرطیکہ  ریال اور پاکستانی کرنسی کا یہ لین دین نقد ہو، ادھار کی صورت میں ناجائز ہےاوررقم لگانے والے شرعی شرائط کےمطابق ان کو رقم لگانےکے لیے دیتے ہوں۔فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :143810200021
تاریخ اجراء :10-07-2017