سود ی معاملات کو لکھنا

سوال کا متن:

مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ  نے سود کے کھانے والے اور دینے والے اور سود کو لکھنے والے اور اس پر گواہ بننے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ سب برابر ہیں۔

میں ایک اکاؤنٹنٹ ہوں جو کہ  پراپرٹی کی ایک کمپنی میں کام کرتا ہوں ، میرے کام  میں سود ی معاملات کو لکھنا اور  سودی چیک تیار کرکے دینا بھی شامل ہے، البتہ میں ان سودی معاملات کے وقت موقع پر موجود نہیں ہوتا، ہاں اس کو بعد میں لکھتا ہوں، کیا میری جاب حرام ہے؟

جواب کا متن:

اگر چہ آپ سودی معاملات کے  بلا واسطہ کرنے میں شریک نہیں ہیں، پھر بھی سودی معاملات کا لکھنا دوسروں کے سودی معاملات میں معاونت ہے، آپ کے فرائض میں دیگر جائز کام ان سودی معاملات کے لکھنے سے زیادہ ہوں تو  آپ کی ملازمت  جائز ہے، لیکن ان سودی معاملات  کا لکھنا گناہ اور ناجائزہے، اور اس کی اجرت بھی جائز نہیں؛ اس لیے کوشش کیجیے کہ کوئی ایسی ملازمت ہو جس میں اس طرح کے اندراجات کی نوبت بھی نہ آئے۔

اگر اسی ادارے میں رہتے ہوئے خود کو سودی اندراجات سے کنارہ کش کرسکتے ہیں تو ایسا کرلیجیے۔  ورنہ سچی لگن کے ساتھ مکمل جائز ملازمت تلاش کریں، جب تک مکمل جائز اور حلال ذریعہ آمدن نہ ملے اس وقت تک استغفار کرتے ہوئے ملازمت جاری رکھیں، جیسے ہی مکمل جائز کام مل جائے تو اسے ترک کردیں۔ فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :143908201072
تاریخ اجراء :18-05-2018