سودی رقم کا مصرف

سوال کا متن:

بینک کے سودی اکاؤنٹ سے ملنے والی سالانہ سود کی رقم کے بارے میں علمائے کرام یہ فرماتے ہیں کہ اس سود کی رقم کو بغیر ثواب کی نیت کے کسی مستحق کو دے دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ اگر میرا کوئی ملازم ہے جس کو میں اس کے کام کی ماہانہ تنخواہ ادا کرتا ہوں اگر وہ ملازم تنخواہ کی رقم کے علاوہ کچھ رقم کی درخواست کرے تو کیا اس کو سود کی رقم بغیر ثواب کی نیت کے دی جا سکتی ہے؟

جواب کا متن:

واضح رہے کہ بینک میں سودی اکاؤنٹ کھلوانا ناجائزہے، اور اگر کسی نے لاعلمی میں کھلوالیا ہو تو اسے چاہیے کہ صدقِ دل سے توبہ و استغفار کرے اور سودی اکاؤنٹ بند کردے یا کرنٹ اکاؤنٹ میں تبدیل کردے۔ اگر کسی مجبوری کی وجہ سے سودی اکاؤنٹ باقی ہو  تو اس کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اس میں جتنی رقم اصل ہے صرف اتنی ہی رقم سے استفادہ کرنا چاہیے، سودی رقم اکاؤنٹ سے نکلوانا بھی درست نہیں ہے۔ تاہم کسی نے سودی رقم نکلوالی ہو تو اس کا مصرف یہ ہے کہ کسی مستحقِ زکاۃ کو ثواب کی نیت کے بغیر دے دی جائے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ رقم نکلواچکے ہیں اور مذکورہ ملازم زکاۃ کا مستحق ہے تو تنخواہ کے علاوہ مذکورہ سودی رقم اسے بطورِ تعاون دی جاسکتی ہے، بصورتِ دیگر سودی رقم نکلوانا اور اسے صرف کرنا درست نہیں ہوگا۔فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144001200165
تاریخ اجراء :19-09-2018