ایزی پیسہ وغیرہ سے حاصل ہونے والے ڈسکاؤنٹ کا حکم، دوسرے شخص کے ڈیبٹ کارڈ سے بل کی ادائیگی میں رعایت(ڈسکاؤنٹ) حاصل کرنے کا حکم

سوال کا متن:

1- کیا ایزی پیسہ یا اس قسم کی دوسری سروسز سے حاصل ہونے والا ڈسکاؤنٹ جائز ہے؟

2- کیا کسی دوسرے فرد کے ڈیبٹ کارڈ سے بل میں رعایت حاصل کی جاسکتی ہے؟

جواب کا متن:

1- ایزی پیسہ اور اس جیسی دوسری سروسز جس میں پیسے قرض رکھوانے کی وجہ سے ڈسکاؤنٹ ملتا ہو ان سے ڈسکاؤنٹ وصول کرنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ قرض کی وجہ سے ملنے والے نفع کو حدیث شریف میں سود کہا گیا ہے۔

2- جو حکم اپنے ڈیبٹ کارڈ سے بل میں رعایت (ڈسکاؤنٹ) لینے کا ہے، وہی حکم دوسرے کے ڈیبٹ کارڈ سے رعایت حاصل کرنے کا ہوگا۔  ڈیبٹ کارڈ (Debit Card)کے استعمال پر ملنے والے ڈسکاؤنٹ کے جائز اور ناجائز ہونے میں درج ذیل تفصیل ہے:

1۔ ڈیبٹ کارڈ کے ذریعہ ادائیگی کی صورت میں کچھ پیسوں کی رعایت (Discount) ملتی ہے، اگر یہ رعایت بینک کی طرف سے ملتی ہو تو اس صورت میں اس رعایت کا حاصل کرنا شرعاً ناجائز ہوگا، کیوں کہ یہ رعایت بینک کی طرف سے کارڈ ہولڈر کو اپنے بینک اکاؤنٹ کی وجہ سے مل رہی ہے جو شرعاً قرض کے حکم میں ہے اور جو فائدہ قرض کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے وہ سود کے زمرے میں آتا ہے۔

2۔ اگر یہ رعایت  اس ادارے  کی جانب سے ہو جہاں سے کچھ خریدا گیاہے یا وہاں کھانا کھایا گیاہے تو یہ ان کی طرف سے تبرع واحسان ہونے کی وجہ سے جائز ہوگا۔

3۔ اگر رعایت دونوں کی طرف سے ہو تو بینک کی طرف سے دی جانے والی رعایت درست نہ ہوگی۔

4۔ رعایت نہ تو بینک کی طرف سے ہو اور نہ ہی جس ادارے سے خریداری ہوئی ہے اس کی طرف سے ہو، بلکہ ڈیبٹ کارڈ بنانے والے ادارے کی طرف سے رعایت ہو، تو اگر اس ادارے کے تمام یا اکثر معاملات جائز ہوں اور ان کی آمدن کل یا کم از کم اکثر حلال ہو تو اس صورت میں ڈسکاؤنٹ سے مستفید ہونے کی اجازت ہوگی۔

5۔ اگر معلوم نہ ہوکہ یہ رعایت کس کی طرف سے ہے تو پھر اجتناب کرنا چاہیے۔ فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144008200826
تاریخ اجراء :08-05-2019