ماہواری کے ایام میں عمرہ کرنا

سوال کا متن:

 میں اپنے شوہر کے ساتھ 20مئی کو عمرے پر جا رہی ہوں، مکہ میں ہمارا قیام صرف 5 دن ہے، اور وہی دن میری ماہواری کے ہیں، کوئی دوا میرے شوہر استعمال نہیں کرنے دے رہے؛ کیوں کہ میری فی الحال کوئی اولاد نہیں ہے، مجھے بتائیں  کیا میرا عمرہ ادا ہو جائے گا؟

جواب کا متن:

ماہواری کے ایام میں احرام باندھنا جائز ہے، اور ماہواری کی حالت میں احرام باندھنے کے بعد عورت کے لیے سوائے نماز اور طواف کے عمرہ کے دیگر اعمال کرنا جائز ہیں، لہذا اگر آپ کو احرام باندھے سے پہلے ایام شروع ہوجائیں تو  احرام کی نیت کرکے تلبیہ پڑھ لیں اور احرام کی دو رکعت نماز نہ پڑھیں، مکہ مکرمہ پہنچ کر پاک ہونے کا انتظار کریں، اس لیے کہ ناپاکی کی حالت میں مسجدِ حرام میں داخل ہونا اورعمرہ کرنا جائز نہیں ہے، جب پاک ہوجائیں تب عمرہ ادا کریں۔ اور اگر واپسی سے پہلے پہلے پاک ہوکر عمرہ کرنے کی کوئی صورت نہ ہو  ( یعنی مثلاً ویزا بڑھانے وغیرہ)  تو مجبوراً اس حالت میں عمرہ کرلیں،  اگر عمرہ کرنے کے بعد پاک ہوکر دوبارہ عمرہ کرنے کا وقت مل جائے تو دوبارہ عمرہ کرنا لازم ہوگا، اور اگر دوبارہ عمرہ کرنے کا موقع نہیں ملا تو اس صورت میں حرم کی حدود میں ایک دم دینا (بکرا یا بکری ذبح کرنا) لازم ہوگا۔

البحر الرائق  (3/ 23) :
"(قوله: أو طاف لعمرته وسعى محدثاً، ولم يعد) أي تجب شاة لتركه الواجب، وهو الطهارة قيد بقوله، ولم يعد؛ لأنه لو أعاد الطواف طاهراً.
فإنه لايلزمه شيء لارتفاع النقصان بالإعادة، ولايؤمر بالعود إذا رجع إلى أهله لوقوع التحلل بأداء الركن مع الحلق، والنقصان يسير، وما دام بمكة يعيد الطواف؛ لأنه الأصل، والأفضل أن يعيد السعي لأنه تبع للطواف، وإن لم يعده فلا شيء عليه، وهو الصحيح؛ لأن الطهارة ليست بشرط في السعي، وقد وقع عقب طواف معتد به، وإعادته لجبر النقصان كوجوب الدم لا لانفساخ الأول. ولو قال المصنف محدثاً أو جنباً لكان أولى؛ لأنه لا فرق بين الحدثين في طواف العمرة، كما في المحيط وغيره. والقياس أنه لايكتفي بالشاة فيما إذا طاف لعمرته جنباً؛ لأن حكم الجنابة أغلظ من الحدث كما في طواف الزيارة لكن اكتفى بها استحساناً؛ لأن طواف الزيارة فوق طواف العمرة، وإيجاب أغلظ الدماء، وهو البدنة في طواف الزيارة كان لمعنيين وكادة الطواف وغلظ أمر الجنابة فإذا وجد أحد المعنيين دون الثاني تعذر إيجاب أغلظ الدماء فاقتصرنا على الشاة، كذا في غاية البيان". 
فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144008201098
تاریخ اجراء :16-05-2019