عمرہ کے ارکان ادا کرنے کے بعد حلق کیے بغیر اپنے ملک واپس چلے جانا

سوال کا متن:

اگر ایک آدمی عمرہ کرنے جاتا ہے، وہاں وہ باقی ارکان کرنےکے بعد سر نہیں منڈواتا (لاعلمی یا عمدًا) اور واپس اپنے ملک آ جاتا ہے(احرام کھول دیتاہے)۔ اس کے عمرے کے متعلق کیا حکم ہے ؟ نیز عمرہ مکمل کیا جا سکتا ہے قربانی یا دم کے ذریعے؟

جواب کا متن:

عمرہ کے ارکان ادا  کرنے کے بعد حلق (سرمنڈوانے) یا قصر (کم از کم ایک چوتھائی سر کے بال کم از کم ایک پورے کے برابر کاٹنے) کےبغیر  آدمی احرام  کی پابندیوں سے نہیں نکلتا؛ لہٰذا اگر مذکورہ شخص نے چوتھائی سر کے بال ایک پورے کے برابر یا اس سے زیادہ نہیں کاٹے تھے تو وہ شخص احرام سے نہیں نکلا، پھر اگر اس نے حلق سے پہلے ممنوعاتِ احرام (مثلاًسلے ہوئے   کپڑے پہننا، خوشبو لگانا  وغیرہ) کا ارتکاب کرلیا تو اس پر ایک دم لازم ہوگا، اور حرم کی حدود سے باہر حلق کرنے کی صورت میں دوسرا دم بھی لازم ہوگا، اور یہ دونوں دم حدود حرم میں ذبح کرنا لازم ہوں گے، خواہ خود کرے یا کسی کو اس کا وکیل بنادے، اور  اس کا عمرہ ادا ہوجائے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

’’(أو حلق في حل بحج) في أيام النحر، فلو بعدها فدمان (أو عمرة) لاختصاص الحلق بالحرم.

(قوله: أو حلق في حل بحج أو عمرة) أي يجب دم لو حلق للحج أو العمرة في الحل؛ لتوقته بالمكان، وهذا عندهما، خلافاً للثاني، (قوله: في أيام النحر) متعلق بحلق بقيد كونه للحج، ولذا قدمه على قوله أو عمرة، فيتقيد حلق الحاج بالزمان أيضاً، وخالف فيه محمد، وخالف أبو يوسف فيهما، وهذا الخلاف في التضمين بالدم لا في التحلل؛ فإنه يحصل بالحلق في أي زمان أو مكان، فتح. وأما حلق العمرة فلا يتوقت بالزمان إجماعاً، هداية. وكلام الدرر يوهم أن قوله: في أيام النحر قيد للحج والعمرة، وعزاه إلى الزيلعي، مع أنه لا إيهام في كلام الزيلعي كما يعلم بمراجعته، (قوله: فدمان) دم للمكان ودم للزمان، ط، (قوله: لاختصاص الحلق) أي لهما بالحرم وللحج في أيام النحر، ط‘‘.  (2/554، باب الجنایات، ط: سعید) فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144003200031
تاریخ اجراء :11-11-2018