کیا سارے گھر والوں کی طرف سے ایک قربانی کرنا کافی ہے؟

سوال کا متن:

کیا تمام گھر والوں کی طرف سے ایک قربانی کی جا سکتی ہے، جیسے آج کل سوشل میڈیا پر مسلم شریف، کتاب الاضحیہ کی ایک حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے ؟  اورکیا باقی آئمہ کرام میں سے  یہ کسی کا مسلک ہے ؟

جواب کا متن:

ہر صاحبِ نصاب عاقل بالغ مسلمان کے ذمہ  قربانی کرنا واجب ہے ، اگر ایک گھر میں متعدد صاحبِ نصاب افراد ہوں تو ایک  قربانی سارے گھر والوں کی طرف سے کافی نہیں ہوگی، بلکہ گھر میں رہنے والے ہر صاحبِ نصاب شخص پر الگ الگ قربانی کرنا لازم ہوگی، کیوں کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص صاحبِ حیثیت ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے، اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر صاحبِ نصاب پر مستقل علیحدہ قربانی کرنا واجب ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ قربانی ایک عبادت ہے، لہٰذا دیگر عبادات (نماز ، روزہ، حج، زکاۃ ) کی طرح قربانی بھی ہر مکلف کے ذمہ الگ الگ واجب ہوگی۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کا عمل مبارک بھی یہ تھا کہ آپ ﷺ اپنی قربانی الگ فرمایا کرتے تھے اور ازواجِ مطہرات کی طرف سے الگ قربانی فرمایا کرتے تھے، اور آپ ﷺ کی صاحب زادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی قربانی مستقل طور پر ہوتی تھی، چنانچہ اس سے بھی پتا چلتا ہے کہ ایک قربانی سارے گھر والوں کی طرف سے کافی نہیں ہے۔

باقی ترمذی شریف   میں ایک  روایت میں اس بات کا ذکر ہے کہ حضورِ اقدس ﷺ کے زمانے میں ایک شخص اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرتا تھا اور اسی بکری سے خود بھی کھاتا اور دوسروں کو بھی کھلاتا تھا، چنانچہ اس حدیث کی وجہ سے امام مالک رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ یہ فرماتے ہیں کہ ایک بکری ایک آدمی کے پورے گھر والوں کی طرف سے کافی ہے، حتیٰ کہ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر ایک گھر میں کئی صاحب نصاب افراد ہوں تو ان میں سے ہر ایک کی طرف سے قربانی کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اگر ایک بکری کی قربانی کردی جائے تو سب کی طرف سے  کافی ہوجائے گی، بشرطیکہ وہ سب آپس میں رشتہ دار ہوں اور ایک ہی گھر میں رہتے ہوں۔

لیکن امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک یہ حدیث   ثواب میں شرکت پر محمول ہے، یعنی اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے  کہ اگر کوئی آدمی  اپنی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرے اور  اس کے ثواب میں اپنے ساتھ   سارے گھر والوں کو شریک کر لے تو یہ جائز ہے، اس کی نظیر یہ ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مینڈھا اپنی طرف سے قربان فرمایا اور دوسرا مینڈھا قربان کر کے فرمایا : ’’ هذا عن من لم یضح من أمتي ‘‘  یعنی میں یہ قربانی اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے کر رہا ہوں جو قربانی نہ کرسکیں، لہٰذا جس طرح  اس حدیث سے یہ مطلب لینا قطعاً درست نہیں ہوگا کہ چوں کہ آپ ﷺ نے اپنی امت کی طرف سے ایک مینڈھا قربان فرمادیا؛ اس لیے اب امت کے ذمہ سے قربانی ساقط ہوگئی، بلکہ مطلب یہ ہوگا کہ آپﷺ نے ثواب میں ساری امت کو اپنے ساتھ شریک کرلیا۔ اسی طرح ترمذی شریف میں مذکور حدیث سے بھی یہ مطلب لینا درست نہیں کہ ایک صاحب نصاب آدمی ایک بکری کی قربانی اپنی طرف سے اور  گھر کے دیگر صاحب نصاب افراد کی طرف سے   کرتا تھا اور سب کے ذمہ سے  واجب قربانی  ساقط ہوجاتی تھی، بلکہ  حدیث شریف کا صحیح کا مطلب یہ ہے کہ  حضور ﷺ کے زمانہ میں غربت عام ہونے کی وجہ سے بعض اوقات ایک گھر کے اندر ایک ہی شخص صاحبِ نصاب ہوتا تھا، اس وجہ سے پورے گھر میں ایک ہی شخص کے ذمہ قربانی واجب ہوتی تھی، باقی لوگوں کے ذمہ صاحبِ نصاب نہ ہونے کی وجہ سے قربانی واجب ہی نہ ہوتی تھی؛ اس لیے پورے گھر میں سے صرف ایک ہی آدمی قربانی کیا کرتا تھا، لیکن  قربانی کرنے والا اپنے گھر کے تمام افراد کو اس قربانی کے ثواب میں شریک کرلیتا تھا۔

اس کے علاوہ حنفیہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر ایک بکری پورے گھر والوں کی طرف سے کافی ہوتی تو جن حدیثوں میں بڑے جانور (گائے، اونٹ، وغیرہ) کو سات کی طرف سے متعین کیا گیا ہے، اس کے کیا معنی ہوں گے؟  کیوں کہ  نصوص کی روشنی میں یہ بات متفق علیہ ہے کہ ایک بکری گائے کے ساتویں حصے کے برابر ہے، لہٰذا اگر ایک گائے میں آٹھ آدمی شریک ہوجائیں تو بمقتضائے تحدید  ’’ البقرة عن سبعة ‘‘ کسی کی بھی قربانی جائز نہیں ہوگی، ورنہ تحدید بے کار ہو جائے گی ، جب کہ اگر ایک گھر میں مثلاً دس افراد صاحبِ نصاب  ہوں تب بھی ایک بکری گھر کے تمام دس افراد کی طرف سے کافی ہوجائے اور سب کی قربانی ادا ہو جائے تو یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک بکری تو دس افراد کی طرف سے کافی ہو جائے اور ایک گائے آٹھ  افراد کی طرف سے کافی نہ ہو،اور اگر یہ کہا جائے کہ گائے کا ساتواں حصہ سارے گھر والوں کی طرف سے کافی ہوجائے گا تو پھر تو ایک گائے کے اندر صرف سات افراد نہیں بلکہ ساٹھ، ستر افراد کی قربانی ہو سکے گی جو کہ واضح طور پر نصوص کے خلاف ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ  گھر میں متعدد صاحبِ نصاب افراد ہونے کی صورت میں تمام گھر والوں کی طرف سے ایک قربانی کرنا کافی نہیں ہے، بلکہ گھر کے ہر صاحبِ نصاب فرد پر اپنی  اپنی قربانی کرنا واجب اور لازم ہے، گھر کے کسی ایک فرد کے قربانی کرنے سے باقی افراد  کے ذمہ سے  واجب قربانی ساقط نہیں ہوگی۔

سنن الترمذي ت شاكر (4/ 89):

"حدثنا قتيبة قال: حدثنا مالك بن أنس، عن أبي الزبير، عن جابر قال: «نحرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالحديبية البدنة عن سبعة، والبقرة عن سبعة». هذا حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، وهو قول سفيان الثوري، [ص:90] وابن المبارك، والشافعي، وأحمد".

سنن الترمذي ت شاكر (4/ 91):

"حدثنا يحيى بن موسى قال: حدثنا أبو بكر الحنفي قال: حدثنا الضحاك بن عثمان قال: حدثني عمارة بن عبد الله قال: سمعت عطاء بن يسار يقول: سألت أبا أيوب الأنصاري: كيف كانت الضحايا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: «كان الرجل يضحي بالشاة عنه وعن أهل بيته، فيأكلون ويطعمون حتى تباهى الناس، فصارت كما ترى». هذا حديث حسن صحيح، وعمارة بن عبد الله مديني، وقد روى عنه مالك بن أنس، والعمل على هذا عند بعض أهل العلم، وهو قول أحمد، وإسحاق، واحتجا بحديث النبي صلى الله عليه وسلم أنه ضحى بكبش، فقال: «هذا عمن لم يضح من أمتي». وقال بعض أهل العلم: لا تجزي الشاة إلاعن نفس واحدة، وهو قول عبد الله بن المبارك، وغيره من أهل العلم".

سنن الترمذي ت شاكر (4/ 100):

"عن جابر بن عبد الله قال: شهدت مع النبي صلى الله عليه وسلم الأضحى بالمصلى، فلما قضى خطبته نزل عن منبره، فأتي بكبش، فذبحه رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده، وقال: «بسم الله، والله أكبر، هذا عني وعمن لم يضح من أمتي»".

سنن ابن ماجه (2/ 1044):

"عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من كان له سعة، ولم يضح، فلا يقربن مصلانا»".

سنن ابن ماجه (2/ 1047):

عن ابن عباس، قال: «كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، فحضر الأضحى، فاشتركنا في الجزور، عن عشرة، والبقرة، عن سبعة»".

سنن ابن ماجه (2/ 1047):

" عن أبي هريرة، قال: «ذبح رسول الله صلى الله عليه وسلم، عمن اعتمر من نسائه في حجة الوداع بقرة بينهن»".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 62):

"(وأما) الذي يجب على الغني دون الفقير، فما يجب من غير نذر ولا شراء للأضحية بل شكراً لنعمة الحياة وإحياء لميراث الخليل عليه الصلاة والسلام حين أمره الله تعالى عز اسمه بذبح الكبش في هذه الأيام فداء عن ولده ومطية على الصراط ومغفرة للذنوب وتكفيراً للخطايا على ما نطقت بذلك الأحاديث، وهذا قول أبي حنيفة ومحمد وزفر والحسن بن زياد وإحدى الروايتين عن أبي يوسف - رحمهم الله - ... (ولنا) قوله عز وجل ﴿فصل لربك وانحر﴾ [الكوثر: 2] قيل في التفسير: صل صلاة العيد وانحر البدن بعدها، وقيل: صل الصبح بجمع وانحر بمنى ومطلق الأمر للوجوب في حق العمل ومتى وجب على النبي عليه الصلاة والسلام يجب على الأمة؛ لأنه قدوة للأمة، فإن قيل: قد قيل في بعض وجوه التأويل لقوله عز شأنه: ﴿وانحر﴾ [الكوثر: 2] أي ضع يديك على نحرك في الصلاة، وقيل: استقبل القبلة بنحرك في الصلاة، فالجواب أن الحمل على الأول أولى؛ لأنه حمل اللفظ على فائدة جديدة، والحمل على الثاني حمل على التكرار؛ لأن وضع اليد على النحر من أفعال الصلاة عندكم يتعلق به كمال الصلاة، واستقبال القبلة من شرائط الصلاة لا وجود للصلاة شرعاً بدونه فيدخل تحت الأمر بالصلاة، فكان الأمر بالصلاة أمراً به فحمل قوله عز شأنه " وانحر " عليه يكون تكرارا والحمل على ما قلناه يكون حملا على فائدة جديدة فكان أولى.

وروي عن النبي عليه الصلاة والسلام أنه قال: «ضحوا فإنها سنة أبيكم إبراهيم، ـ عليه الصلاة والسلام ـ ». أمر عليه الصلاة والسلام بالتضحية، والأمر المطلق عن القرينة يقتضي الوجوب في حق العمل، وروي عنه عليه الصلاة والسلام أنه قال: «على أهل كل بيت في كل عام أضحاة وعتيرة» و " على " كلمة إيجاب، ثم نسخت العتيرة فثبتت الأضحاة، وروي عنه عليه الصلاة والسلام أنه قال: «من لم يضح فلا يقربن مصلانا»، وهذا خرج مخرج الوعيد على ترك الأضحية، ولا وعيد إلا بترك الواجب، وقال عليه الصلاة والسلام : «من ذبح قبل الصلاة فليعد أضحيته ومن لم يذبح فليذبح بسم الله». أمر عليه الصلاة والسلام بذبح الأضحية وإعادتها إذا ذبحت قبل الصلاة، وكل ذلك دليل الوجوب؛ ولأن إراقة الدم قربة والوجوب هو القربة في القربات.

(وأما) الحديث فنقول بموجبه: إن الأضحية ليست بمكتوبة علينا، ولكنها واجبة، وفرق ما بين الواجب والفرض كفرق ما بين السماء والأرض على ما عرف في أصول الفقه، وقوله: " هي لكم سنة " إن ثبت لا ينفي الوجوب؛ إذ السنة تنبئ عن الطريقة أو السيرة، وكل ذلك لا ينفي الوجوب".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 70):

"وأما قدره فلا يجوز الشاة والمعز إلا عن واحد وإن كانت عظيمةً سمينةً تساوي شاتين مما يجوز أن يضحى بهما؛ لأن القياس في الإبل والبقر أن لا يجوز فيهما الاشتراك؛ لأن القربة في هذا الباب إراقة الدم وأنها لا تحتمل التجزئة؛ لأنها ذبح واحد، وإنما عرفنا جواز ذلك بالخبر فبقي الأمر في الغنم على أصل القياس.

فإن قيل: أليس أنه روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين أملحين أحدهما عن نفسه والآخر عمن لا يذبح من أمته فكيف ضحى بشاة واحدة عن أمته عليه الصلاة والسلام؟

(فالجواب) أنه عليه الصلاة والسلام إنما فعل ذلك لأجل الثواب؛ وهو أنه جعل ثواب تضحيته بشاة واحدة لأمته، لا للإجزاء وسقوط التعبد عنهم، ولا يجوز بعير واحد ولا بقرة واحدة عن أكثر من سبعة، ويجوز ذلك عن سبعة أو أقل من ذلك، وهذا قول عامة العلماء.

وقال مالك - رحمه الله -: يجزي ذلك عن أهل بيت واحد - وإن زادوا على سبعة -، ولا يجزي عن أهل بيتين - وإن كانوا أقل من سبعة -، والصحيح قول العامة؛ لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: «البدنة تجزي عن سبعة والبقرة تجزي عن سبعة». وعن جابر - رضي الله عنه - قال: «نحرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم البدنة عن سبعة والبقرة عن سبعة من غير فصل بين أهل بيت وبيتين»؛ ولأن القياس يأبى جوازها عن أكثر من واحد؛ لما ذكرنا أن القربة في الذبح، وأنه فعل واحد لا يتجزأ؛ لكنا تركنا القياس بالخبر المقتضي للجواز عن سبعة مطلقاً فيعمل بالقياس فيما وراءه؛ لأن البقرة بمنزلة سبع شياه، ثم جازت التضحية بسبع شياه عن سبعة سواء كانوا من أهل بيت أو بيتين فكذا البقرة". فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :143909201950
تاریخ اجراء :17-08-2018