قربانی کے جانور کے سینگ نکالنا

سوال کا متن:

کیا فرماتے ہیں علماءِکرام ومفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:

ہم قربانی کے لیے جو جانور خریدتے ہیں، اکثر دیکھنے میں یہ آتا ہےکہ قربانی سے چند مہینے پہلے جانور کو خوب صورت بنانے کی غرض سے ان جانوروں کے سینگ جَڑ سے نکال دیے جاتے ہیں (سر کی ہڈی تک)، میں نے اس سلسلے میں ایک سینگ کاٹنے والے سے بات کی تو اس نے بتایا کہ ہم اگر سینگ کو جڑ سے نکال دیتے ہیں تو اس کا زخم تقریباً دس دن میں صحیح ہوجاتا ہے اور سینگ دوبارہ نہیں نکلتا، لیکن اگر ہم سینگ کو جڑ سے نہ نکالیں، اسے تھوڑا بہت باہر چھوڑ دیں تو زخم کے ٹھیک ہونے میں دو سے تین ماہ تک لگ جاتے ہیں اور اس کے بعد وہ سینگ آہستہ آہستہ بڑھتا رہتا ہے۔

اب معلوم یہ کرنا ہے کہ:

(1)اگر کسی جانور کے سینگ جَڑ سے نکال لیے گئے ہوں اور اس کا زخم ٹھیک ہوجائے تو ایسے جانور کی قربانی جائز ہوگی یا نہیں؟  نیز اس طرح جانوروں کو اذیت دے کر جَڑ سے سینگ نکالنا شرعاً درست ہے یا نہیں؟

(2)اسی طرح جانوروں کو چھوٹی عمر میں سینگ نکلنے سے پہلے سینگ نکلنے کی جگہ پر داغ دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس جانور کے سینگ بالکل نہیں نکلتے ، ایسے جانور کا حکم بھی واضح فرمائیں کہ اس کی قربانی شرعاً جائز ہے یا نہیں ؟ نیز داغ دینے کا یہ عمل شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے؟

(3) مذکورہ بالا جانوروں کی قربانی اگر جائز نہ ہو، لیکن مسئلہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے اگر کسی نے ایسے جانوروں کی قربانی کرلی ہو تو گزشتہ سالوں کی قربانی کا کیا حکم ہے؟

جواب کا متن:

واضح رہے کہ ہر اس جانور کی قربانی جائز ہے جس کے سینگ جڑ سے نہ ٹوٹے ہوں، اسی طرح سے ان جانوروں کی قربانی بھی جائز ہے جن کے سینگ قدرتی طور پر نہ نکلے ہوں یا کسی کیمیکل کے ذریعے سینگ نکلنے کے عمل کو روک دیا گیا ہو  نیز وہ جانور جن کے سینگ تراشے گئے ہوں جڑ سے نکالے نہ گئے ہوں ان کی قربانی بھی شرعاً جائز ہے۔ جیسا کہ فتاوی شامی میں ہے:

"قوله: ويضحي بالجماء هي التي لا قرن لها خلقة، و كذا العظماء التي ذهب بعض قرنها بالكسر أو غيره، فإن بلغ الكسر المخ لم يجز. قهستاني. و في البدائع: إن بلغ الكسر المشاش لايجزي، و المشاش رؤس العظام مثل الركبتين و المرفقين". (٦/ ٣٢٣، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و يجوز بالجماء التي لاقرن لها و كذا مكسورة القرن، كذا في الكافي. وإن بلغ الكسر المشاش لايجزيه، و المشاش رؤس العظام مثل الركبتين و المرفقين، كذا في البدائع". (٥/ ٢٩٧، ط:رشيدية)

لہذا صورت مسئولہ میں :

1) جن جانوروں کے سینگ جڑ سے نکالے گئے ہوں اور اس کا اثر ان کے دماغ تک پہنچ جائے تو ان کی قربانی شرعاً جائز نہیں ہوگی.

2)  وہ جانور جن کے سینگ نکلنے نہیں دیے  گئے ان کی قربانی شرعاً جائز ہوگی،  البتہ بے زبان جانور کو اذیت دینا یا سینگ نکلنے سے روکنے کے لیے داغنا  شرعاً ممنوع ہے، تاہم داغے ہوئے جانور کی قربانی ہوجائے گی۔

3) اگر جڑ سے ٹوٹے سینگ والے جانور  کے زخم کا اثر دماغ تک پہنچا ہو اور ایسے جانور کی قربانی کی گئی ہو تو وہ ادا نہیں ہوئی۔ فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :143908200070
تاریخ اجراء :01-05-2018