قربانی کا جانور خریدنے کے بعد اس میں کسی اور کو شریک کرنا

سوال کا متن:

ایک بچھیا(گائے) جو پانچ بندوں نے مل کر خریدی،  گھر لانے کے بعد قربانی سے پہلے اس میں چھٹا ساتواں حصہ دار کو شریک کرنا کیسا ہے؟

جواب کا متن:

اگر مذکورہ پانچ افراد مال دار ہیں یعنی صاحبِ نصاب ہونے کی وجہ سے ان پر قربانی لازم ہے  اور قربانی کا جانور خریدنے کے بعد اس میں کسی اور کو شریک کرنا چاہتے ہیں تو اس کی دو صورتیں ہیں:

1۔۔ خریدتے وقت مزید افراد کو  اس میں شریک کرنے کی نیت کی تھی تو ایسی صورت میں کسی قسم کی کراہت کے بغیر مزید افراد کو شریک کرنا جائز ہوگا۔ البتہ بہتر یہی ہے خریدنے سے پہلے شریک کرے۔

2۔۔خریدتے وقت مزید افراد کو اس میں شریک کرنے کی نیت  نہیں کی تھی  تو ایسی صورت کسی اور کو اس میں شریک کرنا مکروہ ہوگا، البتہ اگر کرلے تو  بھی سب کی قربانی ہوجائے گی۔

اور اگر مذکورہ خریدار مال دار نہیں، بلکہ غریب ہیں  اور  قربانی کا جانور خریدنے کے بعد اس میں کسی اور کو شریک کرنا چاہتے ہیں تو اس کی بھی دو صورتیں ہیں:

1۔۔ خریدتے وقت مزید افراد کو بھی اس میں شریک کرنے کی نیت کی تھی تو ایسی صورت مزید افراد کو شریک کرنا جائز ہوگا۔

2۔۔ خریدتے وقت مزید افراد کو  اس میں شریک کرنے کی نیت  نہیں کی تھی  تو غیر صاحبِ نصاب شخص کے قربانی کی نیت سے جانور خریدنے سے وہ اس پر قربانی کے لیے لازم ہوگیا، لہذا اب کسی اور شریک نہیں کیا جاسکتا۔اگر شریک کرلیا تو باقی حصوں کی رقم صدقہ کرنا لازم ہوگی۔

الفتاوى الهندية (5/ 304)
'ولو اشترى بقرةً يريد أن يضحي بها، ثم أشرك فيها ستة يكره ويجزيهم؛ لأنه بمنزلة سبع شياه حكماً، إلا أن يريد حين اشتراها أن يشركهم فيها فلا يكره، وإن فعل ذلك قبل أن يشتريها كان أحسن، وهذا إذا كان موسراً، وإن كان فقيراً معسراً فقد أوجب بالشراء فلا يجوز أن يشرك فيها، وكذا لو أشرك فيها ستة بعد ما أوجبها لنفسه لم يسعه؛ لأنه أوجبها كلها لله تعالى، وإن أشرك جاز، ويضمن ستة أسباعها'۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

'(وصح) (اشتراك ستة في بدنة شريت لأضحية) أي إن نوى وقت الشراء الاشتراك صح استحساناً وإلا لا (استحساناً وذا) أي الاشتراك (قبل الشراء أحب۔

(قوله: أي إن نوى وقت الشراء الاشتراك صح استحساناً وإلا لا)،كذا في بعض النسخ، والواجب إسقاطه كما في بعض النسخ ؛ لأن موضوع المسألة الاستحسانية أن يشتريها ليضحي بها عن نفسه، كما في الهداية والخانية وغيرهما، ولذا قال المصنف بعد قوله استحساناً: وذا قبل الشراء أحب. وفي الهداية: والأحسن أن يفعل ذلك قبل الشراء؛ ليكون أبعد عن الخلاف وعن صورة الرجوع في القربة اهـ. وفي الخانية: ولو لم ينو عند الشراء ثم أشركهم فقد كرهه أبو حنيفة.
أقول: وقدمنا في باب الهدي عن فتح القدير معزواً إلى الأصل والمبسوط: إذا اشترى بدنةً لمتعة مثلاً ثم أشرك فيها ستة بعدما أوجبها لنفسه خاصة لايسعه؛ لأنه لما أوجبها صار الكل واجباً بعضها بإيجاب الشرع وبعضها بإيجابه، فإن فعل فعليه أن يتصدق بالثمن، وإن نوى أن يشرك فيها ستةً أجزأته؛ لأنه ما أوجب الكل على نفسه بالشراء، فإن لم يكن له نية عند الشراء ولكن لم يوجبها حتى شرك الستة جاز. والأفضل أن يكون ابتداء الشراء منهم أو من أحدهم بأمر الباقين حتى تثبت الشركة في الابتداء اهـ ولعله محمول على الفقير أو على أنه أوجبها بالنذر، أو يفرق بين الهدي والأضحية تأمل'۔
فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :143909201998
تاریخ اجراء :20-08-2018