بندوق کی گولی کا شکار

سوال کا متن:

اگر کسی شخص نے کسی جانور کا شکار کیا اور وہ جانور ذبح ہونے سے پہلے گولی لگنے کی وجہ سے مر جاۓ تو کیا وہ حلال ہے؟

جواب کا متن:

بندوق کی گولی سے کیا ہوا شکار  اگر ذبح سے پہلے مرجائے تو اس کا کھانا جائز نہیں ہوگا، اور اگر گولی سے شکار کرنے کے بعد جانور کو زندہ زخمی حالت میں پالیا اور پھر اس کو  اللہ کا نام لے کر  ذبح کردیا جائے تو اس کو  کھانا جائز ہوگا  لہٰذا بسم اللہ پڑھ کر چھوڑی ہوئی گولی سے کیا ہوا شکار ذبح سے قبل مر جائے تو اس کا کھانا جائز نہیں ہے۔
یہ حکم عام گولیوں کا ہے، البتہ اگر بندوق کی گولی محدد، نوک دار اور دھاری دار ہو یا نوک دار چھرہ والا کارتوس ہو تو ایسی نوک دار گولی کا شکار حلال ہوگا، لہذا اس پر اگر  اللہ کانام لے کر جانور پر فائر کیا جائے اور گولی لگنے کے بعد  اس جانور پر قابو پانے سے پہلے ہی وہ مرجائے تو اس شکار کا کھانا درست ہوگا۔(کشف الباری 4/263)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 471)
"(أو بندقة ثقيلة ذات حدة)؛ لقتلها بالثقل لا بالحد، ولو كانت خفيفةً بها حدة حل؛ لقتلها بالجرح.
(قوله: أو بندقة) بضم الباء والدال: طينة مدورة يرمى بها (قوله: ولو كانت خفيفةً) يشير إلى أن الثقيلة لا تحل وإن جرحت. قال قاضي خان: لا يحل صيد البندقة والحجر والمعراض والعصا وما أشبه ذلك وإن جرح؛ لأنه لايخرق إلا أن يكون شيء من ذلك قد حدده وطوله كالسهم وأمكن أن يرمي به؛ فإن كان كذلك وخرقه بحده حل أكله، فأما الجرح الذي يدق في الباطن ولا يخرق في الظاهر لا يحل؛ لأنه لا يحصل به إنهار الدم، ومثقل الحديد وغير الحديد سواء، إن خزق حل وإلا فلا اهـ.
والخزق بالخاء والزاي المعجمتين: النفاذ. قال في المغرب: والسين لغة والراء خطأ: وفي المعراج عن المبسوط: بالزاي يستعمل في الحيوان؛ وبالراء في الثوب. وفي التبيين: والأصل أن الموت إذا حصل بالجرح بيقين حل؛ وإن بالثقل أوشك فيه فلا يحل حتما أو احتياطاً اهـ. ولا يخفى أن الجرح بالرصاص إنما هو بالإحراق  والثقل بواسطة اندفاعه العنيف إذا ليس له حد فلا يحل. وبه أفتى ابن نجيم"
۔ فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144001200043
تاریخ اجراء :13-09-2018