جہیز لینے کا حکم

سوال کا متن:

کیا جہیز لینا جائز ہے؟

جواب کا متن:

’’جہیز‘‘  ان تحائف اور سامان کا نام ہے جو والدین اپنی بچی کو رخصت کرتے ہوئے دیتے ہیں۔ (۱) اس لیے اگر والدین بغیر جبر و اکراہ کے اور بغیر نمود ونمائش کے لڑکی کو تحفہ دیتے ہیں تو  یہ رحمت اور محبت کی علامت ہے۔ ایسی صورت میں بچی کے لیے جہیز لینا جائز ہے، اور بچی ہی جہیز کے سامان کی مالک ہوگی۔(۲)

اور اگر جہیز کے نام پر لڑکے والوں کا مطالبہ کرنے پر یا معاشرتی دباؤ کی وجہ سے محض رسم پوری کرنے کے لیے لڑکے والوں کو سامان دینا پڑے اور مذکورہ سامان دینے میں بچی کے والدین کی رضامندی بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں لڑکے والوں کے لیے ایسا جہیز لینا ناجائز ہے۔ اور اگر ایسا جہیز بچی کے حوالہ کر بھی دیا گیا تو بچی ہی اس کی مالک ہوگی اور اس کی اجازت کے بغیر مذکورہ جہیز کے سامان کو لڑکے والوں کے لیے استعمال کرنا حلال نہیں ہوگا۔(۳) فقط واللہ اعلم

حوالہ جات:

(۱)      جہیز : وہ سامان جو بیٹی کی شادی میں ماں باپ کی طرف سے دیا جائے (فیروز اللغات، ص۴۸۹)

الجهاز بالفتح، والكسر لغة قليلة، وهو اسم… لما تزف به المرأة إلى زوجها من متاع.( الموسوعة الفقهية الكويتية، ۱۶/۱۶۵، دارالسلاسل)

(۲)     ذهب جمهور الفقهاء إلى أنه لا يجب على المرأة أن تتجهز بمهرها أو بشيء منه، وعلى الزوج أن يعد لها المنزل بكل ما يحتاج إليه ليكون سكنا شرعيا لائقا بهما. وإذا تجهزت بنفسها أو جهزها ذووها فالجهاز ملك لها خاص بها(الموسوعة الفقهية الكويتية ، ۱۶/۱۶۶، دار السلاسل)

(۳)     قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه»

(" إلا بطيب نفس ") أي: بأمر أو رضا منه(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، ۵/۱۹۷۴، دار الفكر)

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144010200001
تاریخ اجراء :10-06-2019