شوہر کی موت کے بعد بیوی کا مہر کا مطالبہ کرنا

سوال کا متن:

میرے بھائی کا آج سے تقریباً  تین سال پہلے اِنتقال ہوا تھا، اب اس کی بیگم کا مطالبہ ہے کہ مجھے میرا حق مہر دے دیا جائے جب کہ ہمارے بھائی نے نہ تو اسے طلاق دی ہے اور نہ ہی اس کی بیگم نے ہمارے گھر عدت گزاری ہے، مزید یہ کہ اس کی بیگم نے اپنے کمرے کو تالا لگا رکھا ہے جو آج تک بند ہے، ہم اسے اس کا حق مہر دینا چاہتے ہیں، لیکن ہمارے کچھ تحفظات ہیں، وہ یہ کہ میرے مرحوم بھائی کا ایک سات سالہ بیٹا ہے وہ کہے گا کہ مجھے میرے والد کا حصہ دو ۔میری بھابھی کا کہنا ہے کہ جب تک مجھے میرا حق مہر نہیں ملے گا اس وقت تک میں کمرے کا دروازہ نہیں کھولوں گی۔ آپ حضرات سے اس سلسلے میں راہ نمائی کی درخواست ہے!

جواب کا متن:

آپ کے بھائی کے ذمہ لازم تھا کہ اپنی بیوی کا حقِ مہر زندگی میں ہی ادا کردیتے، اب جب ان کا انتقال ہوگیا تو ان کے ورثاء کی ذمہ داری ہے کہ میراث کی تقسیم سے قبل اس حق کو ادا کریں۔لہذا اگر ان کی میراث آپ کے قبضہ میں ہے تو آپ پر لازم ہے کہ بیوہ کا حقِ مہر  اور  میراث میں اس کاحصہ ادا کریں،اگر بیوی اس وجہ سے آپ کا حق روک کررکھتی ہے تو اسے حق حاصل ہے۔ نیز سات سالہ بیٹے  کا بھی اپنے باپ کی میراث میں حق  ہے اور وہ وقت پر اپنے حصہ کا مطالبہ کرسکتا ہے، تاہم فی الحال اس کا مال اس کے ولی یعنی دادا کے پاس رہے گا اور اگردادا نہ ہو تو قریبی ولی کے پاس رہے گا۔ حصص کی تعیین کے لیے ورثاء کی مکمل تعداد لکھ کر سوال کیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ بیوہ کا مہر شوہر کے ذمے قرض ہے اس لیے میراث کی تقسیم سے بھی پہلے مہر ادا کرنا ضروری ہوگا۔

 "محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان عن النبي صلی اﷲ علیه وسلم مرسلاً: من کشف خمار امرأة ونظر إلیها، فقد وجب الصداق دخل بها، أولم یدخل". (السنن الکبریٰ للبیهقي، کتاب الصداق، دارالفکر بیروت۱۱/۵۱، رقم:۱۴۸۵۰)
"وروي عن رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم، أنہ قال من کشف خمار امرأته ونظر إلیها وجب الصداق دخل بها، أو لم یدخل وهذا نص في الباب". (بدائع الصنائع، کتاب النکاح، فصل و أما بیان مایتأکد به المهر، ۲/۲۹۲)
فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144004200407
تاریخ اجراء :02-01-2019