طلاق کے غیر محتمل لفظ سے طلاق کی نیت اور طلاق کا وسوسہ

سوال کا متن:

میں پہلے رمضان ثواب کی نیت سےزبانی سورہ اخلاص پڑھ رہا تھا   تو جب  ” کفواً “  تک گیا تو بیوی کو طلاق دینے کی نیت آگئی کہ میں اس کے بعد ہی لفظِ اَحد سے طلاق دے رہا ہوں ، اسی طرح میں نے تین چار مرتبہ پڑھا،  پہلی مرتبہ پڑھنے کے وقت نیت غیر اختیاری تھی ، اور میں کفواً  کہہ کر دو تین سیکنڈ ٹھہرگیا، اس کے بعد اَحد کہا ۔

اس نیت سے کہ مجھے سورت کو پورا  کرنا ضروری ہے ۔ اس پہلی مرتبہ کے بعد جتنی بار پڑھا تو کفواً   تک آتے ہی یہ نیت ذہن میں حاضر ہوجاتی ہے ۔ کہ بعد والے لفظ سے میں اپنی بیوی کو طلاق دے رہا ہوں ۔ اور میں نے بھی سورت کو اس حال میں پوری کر لیا ۔

   نوٹ: نیت کے بارے کچھ دریافت کرتاہوں  کہ اس طرح کی  نیت اختیاری ہوتی ہے یا غیر اختیاری ؟  میں نے ایک مفتی صاحب کو ایمیل میں سوال ارسال کرنے کے وقت کہہ دیا کہ میری نیت قصداً تھی ۔ اب کچھ شک آتا ہے کہ یہ نیت قصداً تھی  یا نہیں؟ کیوں کہ میں تو ثواب کی نیت سے پڑھتا ہوں ۔ حقیقتاً بیوی کو طلاق دینا میرا مقصد نہیں ۔ آب بتائیں  کہ وہاں قصداً  نیت کہنے سے کیا اقرار والا اصول نافذ ہوجائے گا؟ اور ایک بات ظاہر  کرنا تھا کہ مجھے شک شبہ وسوسہ کی بیماری ہے، یہاں تک کہ بیوی سے بات کرنے میں غیر اختیاری طور پر طلاق کی نیت آجاتا ہے؟

جواب کا متن:

بیوی پر طلاق واقع ہونے کے لیے طلاق کے الفاظ کا ہونا ضروری ہے، زبان سے اگر طلاق کے الفاظ نہ کہے اور محض دل میں خیال یا وسوسہ آجائے  تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوتی، نیز  کسی بھی لفظ سے طلاق کی نیت کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے، بلکہ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ لفظ طلاق کی صلاحیت رکھتا ہو، اور اس میں طلاق کا احتمال موجود ہو۔ ایسا لفظ جو طلاق کا احتمال نہیں رکھتا اس سے اگر طلاق دینے کی نیت کی بھی تو  کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔  اور جب ایسے الفاظ میں نیت کا اعتبار ہی نہیں تو قصداً نیت کے اقرار سے بھی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے، نکاح بدستور قائم ہے، آپ وسوسہ اور شک کی طرف دہیان نہ دیں۔

اور درج ذیل آیت کو بکثرت پڑھیں:

 ﴿رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ ، وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ﴾( سورہ مومنون ، آیت 97، 98)  نیز  اللہ کا ذکر  خصوصاً کلمہ طیبہ بکثرت پڑھنے کااہتمام کریں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 224):

’’قال الليث: الوسوسة حديث النفس، وإنما قيل: موسوس؛ لأنه يحدث بما في ضميره. وعن الليث: لايجوز طلاق الموسوس‘‘.  فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144008200775
تاریخ اجراء :07-05-2019