بیوی کو طلاق کی نیت کیے بغیر تین بار ’’تو مجھ پر حرام ‘‘ کہنے کا حکم

سوال کا متن:

ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین بار یہ کہا : تو مجھ پر حرام ہے۔  اس کی نیت طلاق کی نہیں تھی، تو کیا یہ کہنے سے طلاق واقع ہو گئی یا نہیں؟ جواب مدلل دیں عنایت ہوگی !

جواب کا متن:

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کی بیوی پر ایک طلاقِ بائن واقع ہو چکی ہے، چاہے اس نے لفظ ’’حرام‘‘ کہتے وقت طلاق کی نیت کی ہو یا نہیں، کیونکہ لفظ ’’حرام‘‘ طلاق کے بارے میں عرف کے اعتبار سے طلاق کا صریح لفظ بن چکا ہے، البتہ چوں کہ لفظِ حرام سے طلاقِ بائن واقع ہوتی ہے اور ایک بائن طلاق کے بعد دوسری بائن طلاق واقع نہیں ہوتی ہے؛ اس لیے لفظِ حرام تین دفعہ کہنے کے باوجود ایک ہی طلاقِ بائن واقع ہوئی ہے اور دونوں کا نکاح ٹوٹ چکا ہے، عورت عدت کے بعد کسی بھی جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی، لیکن اگر مذکورہ شخص اور اس کی سابقہ بیوی دونوں ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو نئے سرے سے نئے مہر کے ساتھ دو گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرنے کے بعد ساتھ رہ سکتے ہیں، اور شوہر کے پاس آئندہ کے لیے صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی رہ گیا ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 252):

"ومن الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام فيقع بلا نية للعرف.

 (قوله: فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن لأن الصريح قد يقع به البائن كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحا لأنه صار فاشيا في العرف في استعماله في الطلاق لا يعرفون من صيغ الطلاق غيره ولا يحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحا كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 306):

"(الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة (والبائن يلحق الصريح) ... (لا) يلحق البائن (البائن)".فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144007200542
تاریخ اجراء :03-04-2019