بیوی کا طلاق کے الفاظ نہ سننا / نکاح بغیر گواہ کے نہیں ہوتا تو طلاق بغیر گواہ کے کیوں ہوجاتی ہے؟

سوال کا متن:

 میرے شوہر سعودیہ میں ہیں، ہمارا چھوٹی سی بات پر جھگڑا ہوا ایمو کال پر، بات جب زیادہ بڑھ گئی تو انہوں نے کہا: میں ابھی تین بار بول دیتا ہوں، سن کے بات ختم کرو، تو میں نے کال کاٹ دی؛ تا کہ  وہ ایسا نہ بول سکیں اور ایمو ڈلیٹ کر دی موبائل سے،  وہ کہتے ہیں: میں نے وائس میسج کیا، تین بار بول کے،  لیکن میں نے نہیں سنا؛ کیوں کہ میں پہلے ہی ڈیلیٹ کر چکی تھی۔ پھر اس نے میری بہن کو کہا کے میں اسے میسج میں تین بار بول چکا ہوں،  تو اب یہ مجھ پر حرام ہے۔

تو کیا طلاق ہو گئی یا نہیں؟ اگر ہو گئی تو کیسے؟ نہ ہی اس کے پاس کوئی تھا جس نے سنا وہ اکیلا تھا، نہ ہی ہماری طرف کسی نے سنا تو کیا کسی کے سنے بغیر صرف ان کے بول دینے سے طلاق ہو گئی جب نکاح بغیر گواہوں کے نہیں ہو سکتا تو طلاق بند کمرے میں کسی کے سنے بغیر کیسے ہو سکتی ہے؟

جواب کا متن:

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً شوہر نے سائلہ (اپنی بیوی) کو موبائل پر وائس میسج کے ذریعے تین طلاق کے الفاظ بولے ہیں، اور شوہر اس کو تسلیم بھی کرتا ہے تو اس سے اس کی بیوی (یعنی آپ) پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں ہیں، اگر چہ آپ نے طلاق کے الفاظ نہ سنے ہوں،  طلاق کے واقع ہونے کے لیے شوہر کا بیوی کی طرف نسبت کرکے طلاق دینا کافی ہوتا ہے، بیوی کا سننا یا اس کا موجود ہونا ضروری نہیں ہے۔

شریعت کے احکام پر عمل  کرکے ہی ایک مسلمان  کامل مسلمان بن سکتا ہے، اور شریعت کے احکامات کی بے شمار حکمتیں ہوتی ہیں  جو ضروری نہیں کہ ہمیں سمجھ آئیں، ہماری عقل ناقص ہے، چوں کہ حدیثِ مبارک میں  نکاح  کے درست ہونے کے لیے  گواہان کی موجودگی کو لازمی قرار دیا گیا ہے؛ اس لیے نکاح  کے لیے گواہ بنانا ضروری ہے، تاکہ زنا اور بدکاری کا راستہ روکا جاسکے۔ نیز نکاح کے موقع پر مجلسِ نکاح کے انعقاد اور گواہوں کی شرط میں عورت کا تحفظ اور عزت وشرف بھی ہے، ورنہ بغیر گواہ کوئی بھی عدالت میں دعویٰ کرکے کسی کو اپنی بیوی ظاہر کرسکتا۔

اور طلاق کے لیے گواہ بنانا مستحب تو ہے؛ تاکہ فریقین بعد میں جھوٹا دعویٰ  نہ کرسکیں، تاہم گواہ بنائے بغیر بھی طلاق دے تو  طلاق واقع ہوجاتی ہے؛ حضور ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں طلاق کے کئی واقعات پیش آئے جن میں بغیر گواہی کے طلاق کا اعتبار کیا گیا، اگر طلاق میں گواہی یا دوسروں کا سننا ضروری ہوتا تو گواہ ضرور طلب کیے جاتے، ورنہ کم از کم اعتراف کے موقع پر مکرر اعتراف کروایا جاتا۔ 

نیز  عقلاً بھی دنیا کا کوئی قانون اقرار کرنے والوں  سے گواہ طلب نہیں کرتا  ، اگر شوہر خود اقرار کرتا ہے  کہ میں نے طلاق دی   ہے تو اس کا اقرار  معتبر ہے۔

          علاوہ ازیں نکاح  اور طلاق میں بہت فرق ہے، نکاح کے موقع پر  اور بھی کئی لوازمات کیے جاتے ہیں،  مثلًا خطبہ، رخصتی، ولیمہ، وغیرہ۔ تو کیا ضروری ہے کہ  طلاق کے موقع پر بھی یہ سب کچھ کیا جائے؟ کوئی عقلِ سلیم بھی اس کو قبول  نہیں کرتی۔

تفسیرالقرطبی میں ہے:

"قوله تعالى: {وأشهدوا} أمر بالإشهاد على الطلاق. وقيل: على الرجعة. والظاهر رجوعه إلى الرجعة لا إلى الطلاق. فإن راجع من غير إشهاد ففي صحة الرجعة قولان للفقهاء. وقيل: المعنى وأشهدوا عند الرجعة والفرقة جميعاً. وهذا الإشهاد مندوب إليه عند أبي حنيفة، كقوله تعالى: {وأشهدوا إذا تبايعتم} [البقرة: 282] . وعند الشافعي واجب في الرجعة، مندوب إليه في الفرقة. وفائدة الإشهاد ألايقع بينهما التجاحد، وألايتهم في إمساكها، ولئلايموت أحدهما فيدعي الباقي ثبوت الزوجية". (18 / 157، سورۃ الطلاق، ط؛ الھیۃ المصریۃ العامہ لکتاب) فقط واللہ اعلم

نوٹ:  یہ جواب اس صورت میں ہے جب کہ آپ کے نکاح کے بعد رخصتی ہوچکی ہو۔ بصورتِ دیگر جواب میں فرق ہوسکتاہے، اگر رخصتی نہیں ہوئی تو شوہر کے الفاظ بعینہ لکھ کر بھیج دیجیے کہ اس نے ایک ہی جملے میں تین طلاقیں دی ہیں یا الگ الگ۔

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144008201249
تاریخ اجراء :19-05-2019