’’تو میرے لیےحرام حرام، میرے گھرسےنکل جا‘‘ کہنے کا حکم

سوال کا متن:

ایک شخص نےاپنی بیوی سےجھگڑاکیااور بولا: تو میرےلیے حرام حرام، دو دفعہ بولا اور کہا: میرےگھرسےنکل جا۔۔۔کیا اب طلاق واقع ہوگئی یا نہیں؟ اور کتنی واقع ہوئی؟

جواب کا متن:

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کی بیوی پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی ہے، دونوں کا نکاح ٹوٹ چکا ہے، عورت عدت گزرنے کے بعد کسی بھی دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے، البتہ اگر دونوں ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے دونوں کی رضامندی سے  نئے مہر کے ساتھ دو گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرنا پڑے گا ، لیکن شوہر کے پاس آئندہ کے لیے صرف دو طلاق کا اختیار باقی رہ گیا ہے، اگر مزید دو طلاقیں دے دیں تو بیوی پر کل تین طلاقیں واقع ہونے کی وجہ سے بیوی اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو جائے گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 250):

"مطلب: الصريح نوعان رجعي وبائن، ففي البدائع: أن الصريح نوعان: صريح رجعي، وصريح بائن".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 252):

"ومن الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام؛ فيقع بلا نية للعرف.

 (قوله: فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحاً لا كنايةً، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن؛ لأن الصريح قد يقع به البائن كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحاً؛ لأنه صار فاشياً في العرف في استعماله في الطلاق لايعرفون من صيغ الطلاق غيره ولايحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لايستعمل عرفاً إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحاً كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 306):

"(الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة (والبائن يلحق الصريح) الصريح ما لايحتاج إلى نية بائناً كان الواقع به أو رجعياً، فتح ... (لا) يلحق البائن (البائن)

(قوله: الصريح ما لايحتاج إلى نية) من هنا إلى قوله: على المشهور كان الواجب ذكره قبل قوله: والبائن يلحق الصريح؛ لأن هذا كله من متعلقات الجملة الأولى أعني قوله: الصريح يلحق الصريح والبائن، ولأن المراد بالصريح في الجملة الثانية خصوص الرجعي كما تعرفه قريباً".فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144004200829
تاریخ اجراء :24-01-2019