بہن کے گھر میں داخلے پر طلاق معلق کرنا

سوال کا متن:

 ایک شخص کا اپنی بہن سے جھگڑا ہوا ہے اور اس نے غصے میں آکر یہ کہاہےکہ اگرمیری بہن میرے گھر میں داخل ہوئی تو میری بیوی کو طلاق ۔اب اس واقعے کو دس سال بیت چکے ہیں، اب آیا طلاق کب واقع ہو گی؟ اور اگر وہ شخص اب صلح کرنا چاہے اور اپنی بہن کو بھی گھر لانا چاہے تو اس کا کیا حل ہوگا ؟

جواب کا متن:

شوہر کے مذکورہ جملے  اگرمیری بہن میرے گھر میں داخل ہوئی تو میری بیوی کو طلاق کہنے کی وجہ سے جب تک یہ عورت اس کی بیوی ہو  تو جب  بھی  بہن اس کے گھر میں داخل ہوگی اس کی بیوی کو طلاق پڑجائے گی۔بہن سے صلح کرے اور ا س کے گھر جاکر اس سے مل لیا کرے۔یا کسی اور کے گھر پر اس سے ملاقات کرلے۔ البتہ اگر خدا نخواستہ اس نے بیوی کو طلاق دی اور اس وقت اس کی بہن گھر میں داخل ہوئی اور آئندہ دوبارہ  میاں بیوی کے طور پر ساتھ رہنے لگے تو اب آئندہ بہن کے گھر آنے پر طلاق واقع   نہیں ہوگی۔ اور اگر بہن گھر میں داخل ہوجائے تو صرف ایک ہی طلاق واقع ہوگی اور اس کے بعد عدت میں رجوع کرنے سے بیوی بیوی رہے گی اورتجدیدِ نکاح کی بھی ضرورت نہ ہوگی۔

والتعليق في الملك نوعان: حقيقي، وحكمي. أما الحقيقي: فنحو أن يقول لامرأته: إن دخلت هذه الدار فأنت طالق أو إن كلمت فلاناً أو إن قدم فلان ونحو ذلك، وإنه صحيح بلا خلاف؛ لأن الملك موجود في الحال، فالظاهر بقاؤه إلى وقت وجود الشرط، فكان الجزاء غالب الوجود عند وجود الشرط فيحصل ما هو المقصود من اليمين وهو التقوي على الامتناع من تحصيل الشرط فصحت اليمين، ثم إذا وجد الشرط، والمرأة في ملكه أو في العدة يقع الطلاق وإلا فلايقع الطلاق، ولكن تنحل اليمين لا إلى جزاء حتى إنه لو قال لامرأته: إن دخلت هذه الدار فأنت طالق فدخلت الدار وهي في ملكه طلقت.
وكذا إذا أبانها قبل دخول الدار فدخلت الدار وهي في العدة عندنا؛ لأن المبانة يلحقها صريح الطلاق عندنا، وإن أبانها قبل دخول الدار وانقضت عدتها ثم دخلت الدار لايقع الطلاق لعدم الملك والعدة، ولكن تبطل اليمين حتى لو تزوجها ثانياً ودخلت الدار لايقع شيء؛ لأن المعلق بالشرط يصير عند الشرط كالمنجز، والتنجيز في غير الملك والعدة باطل".
فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144004200953
تاریخ اجراء :01-02-2019