نکاح نامہ میں یہ شرط لگانے کا حکم کہ ’’اگر بیوی کے مطالبہ پر شوہر طلاق نہ دے تو نوے دن بعد طلاق ہو جائے گی‘‘

سوال کا متن:

میری شادی کے ایک سال بعد علیحدگی ہو گئی اور میں واپس اپنے والدین کے گھر ا گئی۔ علیحدگی کے بعد 3 یا چار دفعہ شوہر سے ملاقات ہوئی، مگر یا تو والدین کے ساتھ یا باہر کسی ریسٹورانٹ میں؛ تاکہ معاملات سلجھانے کے بارے میں بات چیت کر سکیں۔ کوئی حل نہ نکل سکا، اور اس کے بعد سے چھ مہینے سے زیادہ ہو چکے ہیں ہماری کوئی بات چیت یا ملاقات نہیں ہوئی ہے۔ میرے نکاح نامے کی شق 18 میں یہ شرط رکھی گئی تھی کہ "اگر بیوی کبھی تحریری طور پر طلاق کا مطالبہ کرے گی تو شوہر 90 دن کے اندر اس کو طلاق دینے کا پابند ہو گا، اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو یہ مدت گزر جانے کے بعد اس کی طرف سے بیوی پر از خود طلاق واقع ہو جائے گی، سوائے اس صورت کے کہ بیوی اپنا طلاق کا مطالبہ تحریری طور پر واپس لے لے"۔

میں اپنا طلاق کا مطالبہ تحریری طور پر بھیج چکی ہوں، اور اگلے ہفتے یہ 90 دن کی مدت ختم ہو جائے گی اور طلاق واقع ہو جائے گی۔

سوال یہ ہے کہ اتنی لمبی علیحدگی (جس میں کم از کم چھ مہینے بالکل کوئی بات چیت یا ملاقات نہیں ہوئی) کے بعد عدت کا کیا حکم ہے؟ براہ مہربانی قرآن اور سنت کی روشنی میں واضح کیجیے!

جواب کا متن:

اگر شوہر نے نکاح سے پہلے ہی نکاح نامہ پر دستخط کیا ہو، نکاح کے بعد دستخط نہ کیا ہو اور نہ ہی کبھی  نکاح کے بعد اس شرط کا تذکرہ آنے کے بعد  اس رضامندی کا اظہار کیا ہو تو نکاح نامہ  کی شق نمبر ۱۸ میں ذکر کردہ تعلیقِ طلاق لغو ہوجائے گی اور نکاح کے بعد بیوی اگر طلاق کا مطالبہ کرے تو شوہر کے طلاق نہ دینے کی صورت میں  طلاق واقع نہیں ہوگی چاہے نوے (۹۰) دن گزر بھی جائیں، لیکن اگر شوہر نے نکاح کے بعد نکاح نامہ پر دستخط کیا ہو یا دستخط تو نکاح سے پہلے کیا ہو، لیکن نکاح کے بعد اس شرط پر اپنی رضامندی کا اظہار کردیا ہو تو  پھر یہ شرط معتبر ہے اور صورتِ مسئولہ میں شوہر اور بیوی کے درمیان جس علیحدگی کا ذکر ہے اگر اس سے مراد یہ ہے کہ طلاق یا خلع کے بغیر بیوی اپنے گھر آگئی تھی اور دونوں اس کے بعد سے علیحدہ رہ رہے ہیں تو اس صورت میں بیوی کی طرف سے طلاق کے تحریری مطالبہ کے بعد شوہر کے طلاق نہ دینے کی صورت میں نوے (۹۰ ) دن کی مدت  پوری ہوتے ہی بیوی پر طلاق واقع ہوجائے گی اور بیوی  پر عدت (تین ماہواری) گزارنا بھی لازم ہوگی، چاہے جتنی لمبی علیحدگی رہی ہو، البتہ اگر علیحدگی سے مراد کچھ اور ہو یعنی طلاق یا خلع ہوئی ہو  تو پھر اس کی مکمل وضاحت کر کے دوبارہ حکم پوچھ لیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 344):

"(شرطه الملك) حقيقة كقوله لقنه: إن فعلت كذا فأنت حر أو حكماً، ولو حكماً (كقوله لمنكوحته) أو معتدته: (إن ذهبت فأنت طالق) (أو الإضافة إليه) أي الملك الحقيقي عاماً أو خاصاً، كإن ملكت عبداً أو إن ملكتك لمعين فكذا أو الحكمي كذلك (كإن) نكحت امرأةً أو إن (نكحتك فأنت طالق) ... (فلغا قوله لأجنبية: إن زرت زيداً فأنت طالق فنكحها فزارت) وكذا كل امرأة أجتمع معها في فراش فهي طالق فتزوجها لم تطلق، وكل جارية أطؤها حرة، فاشترى جارية فوطئها لم تعتق؛ لعدم الملك والإضافة إليه.

 (قوله: أو حكماً) أي أو كان الملك حكماً كملك النكاح فإنه ملك انتفاع بالبضع لا ملك رقبة.... (قوله: أو الإضافة إليه) بأن يكون معلقاً بالملك كما مثل، وكقوله: إن صرت زوجةً لي أو بسبب الملك كالنكاح: أي التزوج". فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144001200389
تاریخ اجراء :03-10-2018