عدالتی خلع کی شرعی حیثیت

سوال کا متن:

شادی کے بعد شوہر نے بیوی پر ناحق ظلم کرنا معمول بنایاہوا تھا 3 سال تک بیوی بہتری کی توقع پر ظلم برداشت کرتی رہی ، ایک دن شوہر نے بیوی کو گھر سے نکال دیا، بیوی کے والدین نے پنچائت  بلائی، پنچائت میں شوہر کا ظالم ہونا ثابت ہوا، پنچائت نے ظلم کی شکار خاتون سے بات کرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ شوہر آئندہ اپنی بیوی سے صحیح سلوک کرنے کی ضمانت دیتے ہوئے اسے اپنے ہمراہ لے جائے، دوسری صورت میں بیوی کو طلاق دے کر اسے آزاد کر دے، شوہر نے بیوی کو دوبارہ آباد کرنے سے انکار کرتے ہوئے طلاق دینے سے بھی انکار کر دیا اور پنچائت  چھوڑ کر چلا گیا۔ بیوی نے اس کے بعد بھی 6 ماہ تک حالات کی بہتری کی اُمید رکھنے کے بعد بالآخر خلع کے حصول کے لیے عدالت سے رجوع کیا۔ عدالت نے شوہر کو طلب کرنے کے لیے نوٹس جاری کیا، شوہر پہلے سے تمام عدالتی کاروائی سے باخبر تھا ،اس نے دانستہ طور پر نوٹس وصول نہیں کیے، عدالت نے شوہر کی طلبی کے لیے اخبار میں اشتہار شائع کروایا، شوہر کے جان بوجھ کر پیش نہ ہونے پر عدالت نے مقدمہ کی مزید چند سماعتوں کے بعد بیوی کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے یک طرفہ خلع کی ڈگری جاری کر دی۔ ایسی عدالتی ڈگری کی کیا شرعی حیثیت ہے؟ کیا اس عدالتی ڈگری کے بعد عدت کا عرصہ ختم ہونے پر کسی دوسرے شخص سے نکاح کر سکتی ہے؟

جواب کا متن:

واضح رہے کہ خلع بھی دیگر مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے جس میں جانبین کی رضامندی ضروری ہے ،اور شوہرکی رضامندی کے بغیر دی جانے والی خلع شرعانافذ نہیں ہوتی ،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر عدالت نے مذکورہ خلع شوہر کی رضامندی کے بغیر دی ہے تو یہ نافذ نہیں ہوئی، سائل اور اس کی بیوی کے درمیان نکاح بدستور قائم ہے؛ اس لیے اس عورت کا کسی دوسری جگہ نکاح حرام ہے ۔ فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :143907200021
تاریخ اجراء :22-03-2018