والدہ کے انتقال کی صورت میں بچے کی پرورش کا حق دار / میکہ سے ملنے والے اور بری کے زیورات کا حکم

سوال کا متن:

 میری بیٹی کا چار ماہ پہلے ایک حادثہ میں انتقال ہوگیاتھا، اس کاایک بیٹا ہے جس کی عمر اس وقت تین سال تھی،  وہ بچہ اس وقت سے میرے پاس رہ رہا تھا، یہ فیصلہ میرے داماد کا تھا،  ہر اتوار کو میرے داماد بچے کو لے جاتے اور رات کو چھوڑ جاتے،  جنوری کی تیس تاریخ کو میرے داماد میرے نواسے کو لے گئے اس کے بعد سے وہ بچہ وہیں رہ رہا ہے،  وہ بچہ بہت چھوٹا ہے،  وہاں اس کی صحت، پرورش اور تربیت کی کوئی امید نہیں ہے۔

میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ اس طرح کے معاملے میں کیا میں بچے کو اپنے پاس رکھ سکتی ہوں؟ حالات کچھ ایسے ہوگئے تھے کہ بچہ پیدائش سے لے کر اب تک ہم سے ہی مانوس رہاہے،  دادا نے پیدائش کے وقت بچے کے کان میں اذان دینے کے وقت سے ہی اس کو ڈس اون(اظہارِ لاتعلقی) کردیا تھا۔ بچے کی بہتر پرورش، تعلیم و تربیت کی خاطر میں اس کو اپنے پاس رکھنا چاہتی ہوں۔

دوم یہ کہ میری بیٹی کی شادی پہ جو جہیز اور سونا میں نے اس کو دیااور جو کپڑے اور سونا اس کے سسرال والوں نے اس کو دیا اس کے بارے میں دین میں کیا احکام ہیں؟

جواب کا متن:

1۔۔ صورتِ مسئولہ میں آپ کی بیٹی کے انتقال ہونے کی صورت میں اس کے تین سالہ بیٹے کیعمر جب تک سات سال نہیں ہوجاتی شرعاً اس کی پرورش کا حق بچے کی نانی (یعنی آپ ) کو ہے، اور بچے کی عمر سات سال ہوجانے کی بعد اس کی تربیت کا حق دار اس کا والد ہوگا۔لہذا  آپ کا اپنے تین سالہ نواسے کو ابھی اپنی پرورش میں رکھنے کا  مطالبہ درست ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

(1/541، الباب السادس عشر فی الحضانۃ، ط: رشیدیہ)

بدائع الصنائع  میں ہے:

(4 / 41، فصل فی بیان من لہ الحضانۃ، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

(3/566، باب الحضانۃ، ط: سعید)

2۔۔  نکاح  کے موقع پر لڑکی کو جو میکہ والوں اور سسرال والوں کی طرف سے سامان ، کپڑے اور زیور  وغیرہ ملتا ہے اس کا شرعی حکم درج ذیل ہے:

جو سامان جہیز،کپڑے،اور زیور وغیرہ  لڑکی کو میکہ والوں کی طرف سے ملتا ہے وہ لڑکی کی ملکیت  شمار ہوتی ہے۔ اسی طرح  لڑکے والوں کی طرف سے جو عام  استعمال کی چیزیں مثلاً کپڑے ، جوتے ، گھڑی وغیرہ لڑکی کو  دیے جاتے ہیں ، اسی طرح منہ دکھائی کے موقع پر جو چیز دی جائے، اور لڑکی مہر  یہ سب  بھی لڑکی  ہی کی ملکیت ہے۔

اور  لڑکی کو  نکاح کے موقع پر مہر کے علاوہ جو  زیورات سسرال والوں کی طرف سے ملتے ہیں، ان میں یہ تفصیل ہے کہ اگر  زیورات دیتے وقت  سسرال والوں نے اس بات  کی صراحت کی تھی کہ یہ  بطورِ عاریت یعنی صرف  استعمال کرنے کے لیے ہیں  تو پھر یہ  زیورات لڑکے والوں کی ملکیت ہوں گے، اور اگرسسرال والوں نےہبہ ، گفٹ اور  مالک بناکر دینے کی صراحت کردی تھی تو پھر ان زیورات  کی مالک لڑکی ہوگی، اور اگر  زیورات دیتے وقت کسی قسم کی صراحت نہیں  کی تھی   تو پھر لڑکے کے خاندان کے عرف کا اعتبار ہوگا، اگر ان کا عرف و رواج بطورِ ملک دینے کا ہے  یا ان کا کوئی رواج نہیں ہے تو ان دونوں صورتوں میں زیورات کی مالک لڑکی ہوگی، اور اگر  بطورِ عاریت دینے کا رواج ہے تو پھر سسرال والے ہی مالک ہوں گے۔

مذکورہ تفصیل کے مطابق جو چیزیں آپ کی مرحومہ بیٹی کی ملکیت ہوں گی اب وہ اس کے انتقال کے بعد اس کا ترکہ شمار ہوں گی جو اس کے تمام شرعی ورثاء میں شرعی حصص کے تناسب سے تقسیم ہوں گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

 (3/158، باب المہر، ط؛سعید)        

       وفیہ أیضاً:

(3/ 153،  کتاب النکاح، باب المہر، ط: سعید)

وفیہ أیضاً:

(3/157، باب المہر، ط: سعید)        

فتاوی عالمگیری  میں ہے:

(1 / 327، الفصل السادس عشر فی جہاز البنت، ط: رشیدیہ) فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144007200141
تاریخ اجراء :17-03-2019