بچہ کی پرورش کا حق

سوال کا متن:

میں نے ایک عورت سے تقریبا 4 سال پہلے نکاح کیا تھا، اس کے پہلے سے دو بیٹے تھے اور ایک بیٹا مجھ سے بھی ہوا ان سالوں میں، میرا بیٹا ہونے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ وہ کسی بری عادتوں میں مصروف ہے جس پر میں نے اس کی اصلاح کرنے کی بہت کوشش کی اور اس پر محنت کرتا رہا کہ کسی طرح وہ جہنم کی آگ سے بچ جائے، مگر وہ باز نہ آئی اور آخر کار میں نے اس کو کاغذ پر طلاق نامہ لکھ کر دے دیا، میرا بیٹا دو سال سے تھوڑا بڑا ہے، میں نے اس سے کہا کہ میں نہیں چاہتا کہ وہ حرام سے کمایا ہوا پیسہ میرے بچے کو کھلائے، اس لیے میں اس بچے کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہوں اور اسے ایک باعمل عالم بنانا چاہتا ہوں۔ آپ میری اس بات کا دین کی روشنی میں حل بتائیں کہ کیا وہ ماں جو حرام اور ناجائز طریقے سے کمایا ہوا پیسہ بچے کو کھلائے کیا وہ صحیح ہے یا میں محنت سے حلال رزق سے اس کی پرورش کروں؟ اس مسئلہ کے لیے میں باقاعدہ ثبوت پیش کرسکتا ہوں، کیا اس کے لیے فتویٰ مل سکتا ہے؟

جواب کا متن:

اگر بچے کے والد کا بیان درست ہے اور وہ بچے کو بری عادتوں والی ماں کی صحبت سے بچانا چاہتا ہے تب بھی سات سال سے پہلے پرورش کا حق ماں کے بعد باپ کو نہیں بلکہ ماں کے بعد سگی نانی، پھر اس نانی کی ماں، پھر سگی دادی، پھراس سگی دادی کی ماں، پھراس کی بہن، پھر مادری بہن یعنی جو اس بچے سے ماں میں شریک اور باپ میں جدا ہو پھر سوتیلی بہن، پھر سگی بھانجی، پھر مادری بہن کی بیٹی، پھر سگی خالہ، پھر مادری خالہ، پھر سوتیلی خالہ، پھر سگی بھانجی، پھر سوتیلی بھانجی، پھر سگی بھتیجی، پھر سوتیلی، پھر سگی پھوپھی، پھر مادری ، پھر سوتیلی ، پھر ماں کی سگی خالہ ،پھر مادری ، پھر سوتیلی ، پھر باپ کی سگی خالہ، پھر مادری، پھر سوتیلی، پھر ماں کی سگی پھوپھی، پھر مادری، پھر سوتیلی، پھر باپ کی سگی پھوپھی، پھر مادری، پھر سوتیلی، یہ کل بتیس ۳۲ عورتیں ہیں کو منتقل ہوگا۔ جب ان بتیس عورتوں میں سے کوئی بھی نہ ہو یا کسی شرعی وجہ سے پرورش کرنے کی مستحق نہ رہے تو پھر پرورش کا حق باپ کو حاصل ہوگا۔چونکہ بچے کا خرچہ باپ کے ذمے لازم ہے، ماں کے ذمے نہیں، اس لیے حرام سے پرورش پانے کا اشکال بے محل ہے۔ والد کو چاہیے کہ وہ بچے کا خرچہ ماں کو دے دیا کرے۔ فقط واللہ أعلم
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :143408200006
تاریخ اجراء :15-06-2013