تین طلاق کے بعد ساتھ رہنے کی صورت میں پیدا ہونے والی بچی کے نسب اور مطلقہ کی عدت کا حکم

سوال کا متن:

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ سے متعلق  کہ عمران نے اپنی منکوحہ کو نشہ کی حالت میں تین طلاقیں دیں اور طلاق دینے کے بعد غیر مقلدین علماء سے اس متعلق فتوی حاصل کیا ۔ جس میں انہوں نے عمران کو اپنی اہلیہ  سے رجوع کرنے کا کہا اور نکاح برقرار رہنے کا فتوی دیا۔ اس کے بعد عمران کی ایک بیٹی بھی پیدا ہوئی اور اب تین سال بعد عمران دوبارہ اپنی اہلیہ کو غصہ کی حالت میں ایک طلاق مزید دے دیتا ہے۔

اب اس متعلق شرعی راہ نمائی فرمائیں آیا عمران کا اپنی اہلیہ کے ساتھ برقرار ہے یا ختم ہوچکا ہے؟  اور ایسے میں عدت کا حکم ہوگا؟  از راہ کرم تفصیلی راہ نمائی فرمائیں!

جواب کا متن:

نشہ کی حالت میں بھی طلاق دینے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے، لہٰذا  صورتِ مسئولہ میں عمران نے جس وقت نشہ کی حالت میں تین طلاقیں دی تھیں اسی وقت اس کی منکوحہ پر تینوں طلاقیں واقع ہو گئی تھیں، عمران کی بیوی اس پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو چکی تھی، دونوں کا نکاح ختم ہوچکا تھا، اب رجوع بھی جائز نہیں اور حلالہ شرعیہ کے بغیر دوبارہ نکاح بھی جائز نہیں ہے،  لہٰذا تین طلاق کے بعد دونوں کا ساتھ رہنا بالکل ناجائز اور حرام تھا، لہٰذا دونوں پر لازم ہے کہ فوراً علیحدہ ہوجائیں اور اتنے عرصے ساتھ رہنے کی وجہ سے حرام کاری کے جو مرتکب ہوئے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ کے حضور خوب توبہ و استغفار کریں، سوال میں جس فتوی کا ذکر ہے وہ فتویٰ چوں  کہ قرآن و حدیث کے مخالف ہونے کے ساتھ ساتھ جمہور صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین بشمول ائمہ اربعہ کے متفقہ فتوی کے مخالف ہے ؛ اس لیے یہ فتوی معتبر نہیں ہے۔

لہٰذا تین طلاق دینے کے باوجود عمران نے اگر اپنی بیوی کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم رکھا ہے تو یہ صریح زنا ہے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بچی کا نسب عمران سے ثابت نہیں ہوگا ،  بلکہ وہ ولد الزنا کہلائے گی اور نہ ہی بیوی پر اب جدا ہونےکےبعدمستقل عدت آئےگی،بیوی کی عدت طلاق کے وقت سےہی شمار ہوکرختم ہوچکی ہے۔

فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144001200048
تاریخ اجراء :13-09-2018