میراث،مناسخہ،والدہ،بہن،چچا،پھوپھی

سوال کا متن:

(1) ایک آدمی فوت ہوجاتا ہے اور اُس کے پیچھے اس کی اولاد میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی اور بیوہ موجود ہیں، اِس کی میراث کس طرح تقسیم ہوگی؟اور بیوی کامہر باقی ہے۔

(2) اسی آدمی کے فوت ہونے کے پانچ سال بعد اُس کا بیٹا بھی فوت ہوجاتاہے، اس بچے کی میراث کا کون کون حق دار ہے جب کہ اِس کی والدہ -بہن -3چچے -2پھوپیاں موجود ہیں؟

جواب کا متن:

صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ میں سے مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے اور اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرضہ ہو (مثلاً بیوی کا مہر وغیرہ) تو قرضہ کی ادائیگی کے بعد، اور اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی مال میں سے وصیت کو نافذ کرنے کے بعد باقی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو ۲۱۶  حصوں میں تقسیم کر کے اس میں سے ۶۹ حصے مرحوم کی بیوہ کو، ۱۲۶ حصے مرحوم کی بیٹی کو اور ۹ حصے مرحوم کے ہر بھائی ( یعنی مرحوم بیٹے کے ہر ایک چچا ) کو ملیں گے۔ مرحوم کی بہنوں (یعنی مرحوم بیٹے کی پھوپھیوں ) کو کچھ نہیں ملے گا۔

فیصد کے اعتبار سے 100 % میں سے   31.94%  مرحوم کی بیوہ کو،58.33%  مرحوم کی بیٹی کو اور  3.24%  مرحوم کے ہر بھائی ( یعنی مرحوم بیٹے کے ہر ایک چچا ) کو ملیں گے۔

نوٹ: یہ جواب اس صورت میں ہے کہ مرحوم بیٹے کی بیوی، بچے نہ ہوں۔ اگر ہوں تو جواب مختلف ہوگا۔

الخامسة : الأخوات لأب وأم، للواحدة النصف، وللثنتين فصاعداً الثلثان، كذا في خزانة المفتين۔ ومع الأخ لأب وأم للذكر مثل حظ الأنثيين، ولهن الباقي مع البنات أومع بنات الابن، كذا في الكافي ۔۔۔ وباقي العصبات ينفرد بالميراث ذكورهم دون أخواتهم وهم أربعة أيضاً: العم وابن العم وابن الأخ وابن المعتق، كذا في خزانة المفتين''.فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :143909201288
تاریخ اجراء :09-07-2018