مالی جرمانہ لینا - غیر شرعی فیصلوں کا حکم

سوال کا متن:

ایک لڑکی اور لڑکے کے درمیان ناجائز تعلقات تھے، اہلِ محلہ کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے اس کے لیے جرگہ بلوایا، اور جرگہ نے یہ فیصلہ کیا کہ لڑکے والے لڑکی کے والدین کو جرمانہ کی مد میں (پڑانا) مبلغ ایک لاکھ روپے دیں ۔جو انہوں نے ادا بھی کر دیے ۔ اور اسی رقم سے اس کے والد نے عمرہ کی ادائیگی بھی کی ۔

  1. کیا اس طرح رقم لینا جائز ہے؟
  2.  کیا اس طرح جو لوگ غیر شرعی فیصلے کرتے ہیں ان کا شریعت کی رو سے کیا حکم ہے؟
  3. کیا جو رقم لی ہے وہ واپس کرنا لازمی ہے یا گنجائش ہے استعمال کی؟
  4.  کیا اس طرح کے معاملات (ناجائز تعلقات) کا شریعت کی رو سے کیا حل ہے؟ اور اس طرح کا فیصلہ کرنے کا اختیار کس کو ہے؟

جواب کا متن:

شریعت میں مالی جرمانہ لیناجائزنہیں ہے۔فتاوی شامی میں ہے:

2۔شریعت سے متصادم قوانین پرفیصلہ کرناموجبِ گناہ ہے،ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن کریم میں ہے:

'' اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ اَحکام کے خلاف حکم جاری کریں وہ نافرمان اور سرکش ہیں ''۔(المائدہ:47)

3۔ چوں کہ مالی مالی جرمانہ لینا جائزنہیں ہے، اس لیے اگرکسی مجرم سے بطورِ زجروتنبیہ کے مالی رقم لی جائے تووہ رقم مالک کو  واپس کرنی چاہیے،مالی جرمانہ عائدکرنایاوصولی کی صورت میں اسے خرچ کرنا،استعمال میں لانادونوں صورتوں ناجائزہیں۔

4۔ شرعی اعتبارسے اس طرح کے جرائم کی صورت میں بقدرِ جرم جوسزائیں عائدکی گئی ہیں ان سزاؤں کے نفاذ سے ہی جرائم کاخاتمہ ہوسکتاہے، اور سزاؤں کا نفاذ اسلامی حکومت میں حاکمِ وقت کو ہے،اور جہاں شرعی نظام نافذ نہ ہووہاں مجرمین کو توبہ تائب ہونے کی تلقین کی جائے۔اورجو اشخاص اس کے باجود باز نہ آئیں ان سے قطع تعلق کرلیناچاہیے۔فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :143907200007
تاریخ اجراء :20-03-2018