بیمار ملازم کا اپنی جگہ اپنے بیٹے کو کام پر بھیج کر تنخواہ وصول کرنا

سوال کا متن:

ایک ملازم شخص بیمار ہے، ایسا بیمار ہے کہ چل پھر نہیں سکتا اور اس کابیٹا ملازمت کے لیے جاتا ہے تو کیا اس شخص کے لیے تنخواہ لینا جائز ہے یانہیں?

جواب کا متن:

صورتِ مسئولہ میں اگر  مذکورہ ادارے کے  قانون  اور ضابطہ میں یا ادارے کےبااختیار مجاز ذمہ دار یا مالک کی طرف سے اس بات کی اجازت ہے کہ ملازمین کسی بھی طرح اپنا کام مکمل کرلیں، خواہ خود کریں یا  کسی دوسرے شخص سے کروالیں  تو اس صورت میں  مذکورہ شخص کے لیے مطلوبہ کام  اپنے بیٹے سے کروا کر تنخواہ لینا جائز ہے۔

  اور  اگر مذکورہ ادارے کے  قانون  اور ضابطہ میں یا ادارے کےبااختیار مجاز ذمہ دار یا مالک کی طرف سے  اس بات کی اجازت  نہیں ہے، کہ ملازمین اپنا  کام کسی اور سے کروائیں، بلکہ ان کے لیے خود ڈیوٹی کرنا ضروری ہے تو اس صورت میں  ملازمین  کے لیے اپنی جگہ کسی اور کو ڈیوٹی پر مقرر کرنا  جائز نہیں  ہے، اور ڈیوٹی  سرانجام دیے بغیر  تنخواہ لینا بھی ناجائز اور حرام ہوگا۔

 اس صورت میں مذکورہ شخص متعلقہ ادارے سے بات کرکے اپنے بیٹے کو ہی ان کے پاس ملازمت دلوادے تو پھر بیٹے کے لیے اپنی تنخواہ لینا جائز ہوگا۔

شرح المجلہ للاتاسی میں ہے:

"الْأَجِيرُ الَّذِي اُسْتُؤْجِرَ عَلَى أَنْ يَعْمَلَ بِنَفْسِهِ لَيْسَ لَهُ أَنْ يَسْتَعْمِلَ غَيْرَهُ مَثَلًا: لَوْ أَعْطَى أَحَدٌ جُبَّةً لِخَيَّاطٍ عَلَى أَنْ يَخِيطهَا بِنَفْسِهِ بِكَذَا دَرَاهِمَ، فَلَيْسَ لِلْخَيَّاطِ أنْ يَخِيطَهَا بِغَيْرِهِ وَإِنْ خَاطَهَا بِغَيْرِهِ وَتَلِفَتْ فَهُوَ ضَامِنٌ ..... لَوْ أَطْلَقَ الْعَقْدَ حِينَ الِاسْتِئْجَارِ فَلِلْأَجِيرِ أَنْ يَسْتَعْمِلَ غَيْرَهُ". (2/271،272/ المادۃ؛571، 572، کتاب  الاجارۃ، ط: رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وَإِذَا شَرَطَ عَمَلَهُ بِنَفْسِهِ) بِأَنْ يَقُولَ لَهُ: اعْمَلْ بِنَفْسِكَ أَوْ بِيَدِكَ (لَايَسْتَعْمِلُ غیرهُ إلَّا الظِّئْرَ فَلَهَا اسْتِعْمَالُ غَيْرِهَا) بِشَرْطٍ وَغَيْرِهِ، خُلَاصَةٌ (وَإِنْ أَطْلَقَ كَانَ لَهُ) أَيْ لِلْأَجِيرِ أَنْ يَسْتَأْجِرَ غَيْرَهُ". (6/18، کتاب الاجارۃ، ط: سعید)

"قال في البحر: وحاصل ما في القنية: أن النائب لايستحق شيئاً من الوقف؛ لأن الاستحقاق بالتقرير، ولم يوجد، ويستحق الأصيل الكل إن عمل أكثر السنة. وسكت عما يعينه الأصيل للنائب كل شهر في مقابلة عمله، والظاهر أنه يستحق؛ لأنها إجارة وقد وفى العمل بناء على قول المتأخرين المفتى به من جواز الاستئجار على الإمامة والتدريس وتعليم القرآن … وقال في الخيرية: بعد نقل حاصل ما في البحر: والمسألة وضع فيها رسائل، ويجب العمل بما عليه الناس وخصوصاً مع العذر، وعلى ذلك جميع المعلوم للمستنيب وليس للنائب إلا الأجرة التي استأجره بها". اهـ. (شامی 4/420، کتاب الوقف، ط: سعید) فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144010200611
تاریخ اجراء :06-07-2019