بغیر حج کی وصیت کے میت کی طرف سے حج بدل کرنا

سوال کا متن:

زید موت سے پہلے صاحب حیثیت تھا، موت سے پہلے اس نے حج کیا نہ حج کی وصیت۔اب اس کا بیٹا اس کی طرف سے حج کروانا چاہتا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا یہ حج بدل ہے؟ اس صورت میں کون سا حج کیا جائے؟

جواب کا متن:

بصورتِ مسئولہ جب زید نے صاحبِ حثیت ہونے کے باوجود حج نہیں کیا تو زید گناہ گار ہوا اور اب بغیر وصیت کے انتقال کرجانے کے بعد اگر اس کا بیٹا اس کی طرف سے حج کرتا ہے تو اللہ کی ذات سے امید ہے کہ اس سے زید کی طرف سے حج ادا ہوجائے گا اور زید مؤاخذہ سے بری ہوگا۔

اس صورت میں زید کے بیٹے کو حجِ تمتع، حجِ قران اور حجِ افراد، تینوں کا ہی اختیار ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ وہ حجِ افراد کرلے۔

الفتاوى الهندية میں ہے:

"من عليه الحج إذا مات قبل أدائه فإن مات عن غير وصية يأثم بلا خلاف، وإن أحب الوارث أن يحج عنه حج وأرجو أن يجزئه ذلك إن شاء الله تعالى، كذا ذكر أبو حنيفة - رحمه الله تعالى –". (۱/۲۵۸، رشیدیہ)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"اگر بغیر وصیت کوئی وارث اپنے حصے سے حج ادا کرادے، یا اپنی طرف سے اپنے مال سے ادا کرادے تو امید ہے کہ وہ میت مواخذہ سے بری ہوجائے".  (۱۰/۴۲۱، دار الافتاء جامعہ فاروقیہ)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

" اگر آپ کے مرحوم والدین کے ذمہ حج فرض نہ تھا یا حج تو فرض تھا مگر وصیت نہیں کی، اور آپ اپنی طرف سے حج بدل کرنا چاہتے ہیں تو آپ حسب مرضی حج افراد یا قران یا تمتع میں سے جونسا احرام باندھیں اختیار ہے، مگر حج افراد کا احرام باندھ  کر حج کرنا اولی ہے" ۔ (۸/۱۲۹، دار الاشاعت) فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144010200679
تاریخ اجراء :09-07-2019